پچھلے پچیس سالوں میں امریکہ کے اندر ہوئے 94فیصد دہشت گرد حملوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو مسلمان نہیں ہیں۔

ایف بی ائی کے ایک جائزہ کے مطابق ہر ایک امریکی حملے میں جو1980اور 2005کے درمیان میں پیش ائے ہیں اس میں94فیصد لوگ ان حملوں کو انجام دینے والوں میں وہ لوگ ہیں جو مسلمان نہیں ہیں۔

اور اس کے علاوہ امریکہ میں یہاں پر سال2015اور2016کے درمیان میں مخالف مسلم گروپس میں تین گناہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہہ سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ آبادی کے بڑھتے ہوئے طبقے نے اس بات کو پختہ کرلیاہے کہ ’’ دہشت گرد ‘‘ کا مطالب’’ مسلمان‘‘ ہی ہے۔مصنف او راٹارنی قاسم رشید اس غلط اور تکلیف دہ نشاندہی کے لئے کافی ہیں۔

جب کسی نے انہیں ٹوئٹ کے ذریعہ چیالنج کیاہے ’’ عیسائی دہشت گردی پیش کریں‘‘ ۔

سونچئے رشید نے صرف کنارے سے اس کی حمایت کی تھی۔ رشید نے ایک تاریخی سبق بھی پیش کیا۔پھر اس کے بعد رشید نے ٹوئٹر کے ذریعہ پیغام جاری کیا ۔ اسکرین شاٹ کے طور پر رشید کی پیش کردہ کچھ مثالیں ان تمام واقعات کو ثابت کرتی ہیں۔

رشید کی عیسائی دہشت گردی کی فہرست میں جوزف کونیا کے لارڈس کے مزاحمت کرنے والی فون‘مرکزی افریقی ریپبلک میں ایک عیسائی اتحادی فوج ‘ امریکہ میں وائٹ سوپرمسٹیک اینڈ مذہبی گروپ ‘اینٹی ابرشن ٹررسٹ روبراٹ ڈیر‘ اولمپیک بامبر اریک روڈالف 1996‘اور دیگر کی میزبانی کرنے والے شامل ہیں۔

اپنے آخری پیراگرف میں رشید نے اپنی بات کو مرکز توجہہ بنایاہے۔ انہوں نے لکھاکہ’’ میں جانتا ہوں اس طرح کے اقدامات عیسائیت کی نمائندگی نہیں کرتے کیونکہ میں نے عیسائیت ‘ عیسائیوں سے سیکھی ہے‘ نہ کہ مخالف عیسائی سے ۔اسی طرح اسلام بھی مسلمانوں سے سکھیں نہ کہ مخالف مسلمانوں بڑی باتیں کرنے والوں سے‘‘۔

ان لوگو ں کی طرح نہیں جو انہیں غیر مسلم دہشت گردوں کی شناخت پیش کرنے کا اسرار کررہے تھے ‘ رشید کو معلوم ہے کہ وہ لوگ جن کو فہرست میں شامل کیاہے وہ عیسائیت کی شناخت نہیں ہیں وہ پوری عیسائی قوم کے نمائندے نہیں ہوسکتے ۔

اسی طرح مسلم دہشت گرد کو تمام مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہوتے۔او ریہ بھی ان تمام کے لئے ایک سبق ہے جو انفرادی کاروائی کو پورے طبقے سے ساتھ جوڑنے کاکام کرتے ہیں۔

چاہے وہ نسل ‘ جنس‘ مذہبی یا کسی او رنام پر ہو یہ نہ صرف غلط ہے بلکہ غیرمحفوظ بھی ہے۔تو اگلی بار آپ کسی کو یہ کہتے ہوئے سنیں گے کہ’’ نہ صرف تمام مسلمان دہشت گرد ہیں مگر تمام دہشت گرد مسلمان ہیں‘‘ اس کے لئے مندرجہ بالا تحریر میں شاندار مثال پیش کی گئی ہے