بنارس۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کیمپس میں لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کاواقعے کی گونچ اس وقت سنائی دی جب 23ستمبر کو جنسی ہراسانی کے خلاف احتجاج کررہی طلبہ پر پولیس نے لاٹھیاں برسائیں۔
انڈین ایکسپریس نے بی ایچ یو اسٹوڈنٹس کے کچھ تجربات کی یاد دلایا جس میں اس خوف ناک رات کی یاد بھی تازہ ہوگئی جب پولیس نے کسی قسم کی رعایت کے بغیراحتجاج کررہی طالبات پر بے رحمی کے ساتھ لاٹھیاں برسائیں تھی۔
جنسی امتیاز کی بنیاد پر
انگریزی ہانر کی تعلیم حاصل کررہی سال سوم کی طالب علم شیوانگی چوبے نے کہاکہ بی ایچ یو میں ان کے داخلے پر والدین کافی خوش ہوئے’’ یہ میرے والد کا خواب تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے قصبے جونپور میں وہ بڑی ہوئی اور زندگی کو بہت قریب سے دیکھا۔وہ چاہتے تھے میں اور میرا بھائی بہار کے باہر چلے جائیں۔بی ایچ یو باہر جانے کا راستہ بنا‘‘۔
شیوانگی نے کہاکہ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ بی ایچ یو ’’ سنسکاری جگہ ہے ‘ دہلی کے دیگر کالجوں کی طر ح نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ’’ صرف سنسکرت‘ ہندی اور بنگالی زبانیں ویمنس کالج کی طلبہ کو پیش کی گئی ہیں وہیں آرٹس کے مرد طلبہ کے لئے جرمن‘ اسپینش‘ او رپولش زبانو ں کے انتخاب کی گنجائش ہے۔ اس کے علاوہ رات10بجے کے بعد لڑکیاں موبائیل فون استعمال نہیں کرسکتی۔
ایک بیس سال کی طالب علم جو جرنلزم کرنا چاہتی ہے نے کہاکہ’’میرا کسی تنظیم سے تعلق نہیں ہے۔ میں اپنی لڑائی خود لڑرہی ہوں۔سال او میں میں نے انتظامیہ سے ویمنس کالج کیمپس میں کتوں کی موجودگی کے متعلق شکایت کی تھی اور ہاسٹل میں پانی کی قلت کے متعلق بھی نمائندگی کی ۔ میں نے ویمن ہاسٹل میں وائی فائی کے لئے جدوجہد کی ‘ جو سہولت لڑکوں کے ہاسٹل میں ہے۔ایک اور طالب علم جو سماجیات کی تعلیم حاصل کررہی ہیں نے کھانے پر عائد تحدیدات کے متعلق بتایا کہ’’ میں نان ویج ہوں منگل اور ہندوتہوارؤں کے موقع پر ہمیں انڈ ہ سربراہ نہیں کیاجاتا‘‘
پولیس نے کس طرح احتجاج کرنے والے طلبہ پر لاٹھی چارج کیا۔
چھیڑ چھاڑ کا واقعہ سناتے ہوئے شیوانگی نے کہاکہ’’ ہم صرف احتجاج کررہے تھے‘ مگر جب پولیس نے ہمیں ہاسٹل میں واپس کرنے کے لئے پیٹنا شروع کیا ‘ برہمی کے ساتھ ہماری آنسو جاری ہوگئے۔اس کے بعد ہم واپس باہر مرکزی با ب الدخلہ پر پہنچے اور ان کا سامنا کیا ‘ یہ حقیقی تصوئیر ہے‘‘۔
انگریزی کی ایک اورطالب علم شوبھاہی مشرا نے کہاکہ وہ خود اس کو احتجاج سے اس لئے علیحدہ کرلیا کیونکہ قبل ازیں ٹیچرس نے امتحانات میں نشانات کم دینے کی دھمکی دی تھی۔’’ ہمارے ایک پروفیسر کو پروٹوکال بورڈ میں تھے انہیں وارڈن بنانے کی تیاری کی جارہی تھی ‘ میں بھی تبادلہ چاہتی تھی ۔میں ڈری ہوئی تھی۔ اگر پروٹوکال بورڈ میں شکایت کی گئی تو میرے نمبرات کم ہوسکتے ہیں مجھے یونیورسٹی میں سیٹ نہیں ملے گی‘ جو کیمپس میں سکیورٹی انچار ج بھی ہے!‘‘۔
جب شوبھاہی نے چھیڑ چھاڑ کا یہ دل دہلادینے والے واقعہ کے متعلق سناتو کہاکہ’’ اس بار میں میرا ڈر ختم ہوگیاتھا۔ اب مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ میں بیزار ہوگئی تھی‘‘۔ اس نے مزید بتایا کہ وہ اور اس کے دیگر ساتھیوں نے ایم ایم وی ہاسٹل کے اطراف گھوم کے سال سوم کے طلبہ کو احتجاج میں شامل ہونے کے لئے مجبور کیا۔اس نے بتایا کہ ’’ اس طرح ایم ایم وی نے دیگر ہاسٹل کی لڑکیوں کو احتجاج میں شامل کیا ‘‘۔
ایک اور اسٹوڈنٹ نے شناخت ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہاکہ ’’ ہمارا مطالبہ یونیورسٹی میں بنیادی سہولتیں جیسے اسٹریٹ لائٹس اور کیمپس میں سکیورٹی ہے۔ ہم چاہتے ہیں وائس چانسلرائے اور ہماری بات سنے۔ پولیس کے ہاتھوں پیٹائی کے باوجود۔جس کی وجہہ سے ہم کافی برہم ہیں اور اس منظر کشی میں ائے ہیں‘‘۔
اس کے گھر والے بی جے پی کے حمایتی ہیں‘ اور انہوں نے قبول کیا ہے کہ احتجاج حقائق کی بنیاد پر کیاجارہا ہے۔’’ میرے گھر والوں کو ماننا ہے کہ وزیراعظم کا ہم سے ملاقات نہ کرنا غلط بات ہے۔ یہ ان کاپارلیمانی حلقہ ہے اور ان کی ذمہ داری بھی ہے‘‘۔مذکورہ طالب علم جس کی عمر19سال کی ہے خاندان کی دوسرے لڑکی ہے جو بہار کے باہر جاکر تعلیم حاصل کررہی ہے‘ اس کی چچا زاد بہن نے دہلی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔