امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ آج خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں ان کو لگتا ہے کہ ان کی شمالی کوریا کے رہنماکم جونگ ان کے ساتھ سنگاپور میں ہونے والی ملاقات کو رتاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔لیکن امریکیو ں کی ذہنیت کو جاننے والے لوگوں کو معلوم ہے کہ امریکیوں کے ساتھ کیا جانے والا کوئی بین الاقوامی معاہدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔
کیونکہ دوسر صدر آکر اس کو بدل دے گا یا پھر اس مفاہمت نامہ پر اتنی گرد ڈال دے گا کہ وہ ماضی کے تہہ خانہ کا حصہ بن جائے۔ذرا سوچئے ایران کے ساتھ کئے گئے نیو کلیائی سمجھوتہ کا کیا ہوا ؟فلسطینیوں کے حقوق دلوانے کے لئے کیمپ ڈیوڈ اوراوسلو میں جو معاہدہ امریکیوں نے کروائے تھے ان کا کیا حشر ہوا ؟
پیرس کے ماحولیاتی سمجھوتے سے گذشتہ سال امریکہ باہر کیوں نکلا ؟امریکہ کا ہر صدر اپنی مرضی او راپنی حکمت عملی کے تحت فیصلہ کرتا ہے اسی لئے وہ نئی تاریخ لکھنے کے بجائے خود ہی تاریخ کے اوراق پر روشنائی کی شیشی انڈیلتا رہے گا۔بہرکیف آج توڈوناڈ ٹرمپ کو موقع مل ہی گیا ہیکہ وہ اپنی پیٹھ تھپتھپائیں ۔
حالانکہ اس کے اصل مستحق کم جونگ ان ہیں ۔امریکہ کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ اس نے شمالی کوریا پر معاشی پابندیا ں عائد کردیں ، مگر جونگ ٹس سے مس نے ہوئے بلکہ وہ نیو کلیائی تجربوں کو بار بار دہراتے رہے ۔پوری دنیا کی میڈیا امریکی ذرائع ابلاغ سے نشر کی جانے والی اطلاعات کی بنیاد پر کم جونگ جو سنکی اور جنونی قرار دیتا رہا ۔مگر کم جونگ ایک پتھر کی طرح اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔اسی وجہ سے آج امریکہ کو دھمکیاں اور معاشی پابندیاں چھوڑکر گفتگو کی میز پر آنا پڑا۔