ٹرامپ کی جیت کے بعد‘ حجاب پہننے والے مسلم طلبہ کو کیلی فورنیا کیمپس میں نشانہ بنانے کا واقعہ‘

لاس اینجلس:دو یونیورسٹی انتظامیہ نے جمعرات کے دن بتایاکہ پولیس مسلم طالبات پر حملوں کی تحقیقات کررہی ہے جو نفرت کی بنیاد پر انجام دیا گیا تھا۔دونوں حملے چہارشنبہ کے روزڈونالڈ ٹرامپ کے صدر منتخب ہونے کے ایک روز بعد انتخابی مہم کے اختتام کے وقت پیش ائے جب ریپبلکنس کی جانب سے مسلمانوں پر نفرت اور اشتعال انگیز ریمارکس کے بعد پیش ائے۔کیمپس پولیس کے مطابق دوحملہ آواروں نے سینٹ ڈیگو یونیورسٹی میں متاثرین پر ’’ صدر ٹرمپ اور مسلم کمیونٹی پر تبصرہ‘‘ کے بعد حملے انجام دئے۔

پولیس ترجمان رونالڈ بروسوورڈ نے کہاکہ متاثرہ عورت کا پرس‘ بیاگ اور کار کی چابیاں چورا لی گئی ۔ وہ مدد کے لئے پولیس کے ساتھ موقع واردات پر واپس پہنچی‘ صرف چوری کی گئی گاڑ کی تلاش کے لئے۔بروسسورڈ نے کہاکہ واقعہ کی ایک مضبوط ڈکیتی اور گاڑیوں کی چوری کے علاوہ نسلی جرائم کے پیش نظر تحقیقات کی جارہی ہے۔

اپنے مشترکہ بیان میں یونیورسٹی صدر ائی ہرشامین اور انٹریم پولیس چیف جوش میس نے کہاکہ ’’ مسلم عقیدے اور روایتی حجاب پہننے کی وجہہ سے طالبہ پر تبصرے کے بعد حملے کی وجوہات سامنے آرہے ہیں‘‘۔سین جو اسٹیٹ یونیورسٹی پولیس نے بھی اس طرح کے ایک واقعہ کی تحقیقات کا ذکر کیا جس میں کیمپس پارکنگ گیارج میں طالبہ پر حملے کا واقعہ پیش آیا۔طلبہ کی جانب سے دئے گئے بیان کے مطابق متاثرہ لڑکی کے عقب سے ایک مرد حملہ آوار نے متاثرہ لڑکی کے سر سے اس کااسکارف کھینچا اور لڑکی اپناتوازن کھونے کے بعد نیچے گر گئی۔

یونیورسٹی ترجمان پیٹ ہاریس نے اپنے ای میل کے ذریعہ اے یف پی کو دئے بیان میں کہاکہ’’ کیمپس عہدیدارحالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب تک کسی کی بھی گرفتاری عمل میں نہیں ائی ہے‘‘۔نیویارک یونیورسٹی کی مسلم طلبہ تنظیم نے چہارشنبہ کے روزایک بیان جارکرتے ہوئے کہاکہ انجینئرنگ کے کچھ اسٹوڈنٹس یہاں آکر انے کے نماز کے روم کے پاس ’’ ٹرامپ ‘‘ کے مخالفین کو ڈھونڈ رہے تھے۔

ارگنائزیشن کے ممبران نے کہاکہ ’’ انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ کیمپس میں متعاصب حالات نہیں تھے‘‘۔مقامی میڈیا کے حوالے سے پولیس نے جمعرات کے روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے حملے کی وجہہ متاثرہ لڑکی کو قراردیا ہے۔دی لیفٹی پولیس ڈپارٹمنٹ نے اس مسلئے پر کوئی رائے دینے سے گریز کیاہے۔