لکھنؤ:۔ کاس گنج واقعہ میں ہندو لڑکی اور مسلم لڑکے جوڑے کو موضوع بحث بنا یا گیا ہے۔پچھلے ماہ ستائیس مارچ کوبیس سالہ سرا بھی چوہان اورستائیس سالہ راحت کے درمیان شادی ہو ئی تھی۔یہ شادی دونوں کی لو میریج تھی۔ ۲۶ جنوری کو ہوئے کاس گنج میں تشد د میں اس کو نشانہ بنا یا گیا۔اور راحت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سرابھی نے بتایا کہ راحت کی صرف یہی غلطی تھی کہ ہ ایک ہندو لڑکی سے شادی کیا ہے۔سرابھی نے کہا کہ ۲۶ جنوری کو وہ اپنے شوہ رکے ساتھ نیوز دیکھ رہی تھیں۔انہوں نے نیوز میں دیکھا کہ بلرام گیٹ کے پاس فرقہ وارانہ تشدد ہو رہا ہے۔اسی دوران راحت کو فون کال موصول ہوا کہ فسادات شروع ہو گئے ہیں۔لوگوں نے راحت کو باہر بلایامگر میں نے انہیں باہر جانے سے بہت روکا۔پر وہ مانے نہیں۔
دوسرے دن جب ہم علیگڑھ کے لئے جا رہے تھے پولیس نے ہمیں گرفتار کر لیا۔میں نے ان سے درخواست کی پر انھوں نے نہیں مانا اور راحت کو گرفتار کر کے لیکر چلے گئے۔سرابھی نے روتے ہوئے کہا کہ پولیس نے میرے شوہر کے ساتھ بد سلوکی کئے ہیں ۔میں نے پولیس سے بہت منت سماجت کی ہے لیکن پولیس میری ایک نہ سنی ۔
پولیس اصل مجرم کو پکڑ نہیں سکتی اور معصوم لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ میں میرے شوہر کو اس الزام سے بری کرنا چاہتی ہوں۔اس کو صرف اس لئے گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ ایک ہندو لڑکی سے شادی کیا ہے۔جب ان سے سوال کیا کہ کیا تمہارے خاندان والوں نے اسے گرفتار کروایاہے ؟ تو سرابھی نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میرے خاندان والے ہماری اس شادی سے خوش نہیں تھے ۔
وہ مجھ سے اپنا رشتہ توڑ لئے ہیں۔ وہ مجھ سے بات نہیں کرتے۔لیکن وہ ہمارے کسی معاملہ میں دخل اندازی نہیں کرتے۔سرابھی نے مزید کہا کہ اس کے گھر میں بھگوانوں کی مورتیاں ہیں لیکن کبھی راحت نے کو ئی اعتراض نہیں کیا ہے۔
حالانکہ کبھی وہ اس کے ساتھ پوجا میں شریک رہتا ہے۔اور وہ نماز بھی پڑھتا ہے ۔راحت کے والدین اس معاملہ سے سکتہ میں آ گئے ہیں ۔پینسٹھ سالہ راحت کے والد ظفر نے کہا کہ کبھی ہم نے سرابھی کو اسلام قبول کر نے کے لئے کبھی دباؤ نہیں ڈالا