جس کسی نے عزت مآب وزیر اعظم کو ’پھیکو ‘ اور ’این آر ائی وزیر اعظم‘ اور راہول گاندھی کو ’’ پپو اور جزوقتی سیاستداں ‘‘ کے خطاب سے نوازا اس کی بذلہ سنجی کی اداد دینی چاہئے۔ او ریہ بات گذشتہ سال امریکی دورے سے واپس کے بعد راہول گاندھی میں خود اعتمادی اور جارحانہ تیوروں والی خوشگوار تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ سوشیل میڈیا کا ستعمال بھی ان کی مقبولیت کا سبب بنا ان سب کا اثر گجرات کے اسمبلی اور راجستھان کے ضمنی انتخابا ت پر بھی پڑا۔ گجرات میں جیت کے باوجود بی جے پی لیڈرسراسیمہ نظر ائے جبکہ ہار پر بھی کانگریس کیمپ میں جشن کا سماں تھا ۔
اسی طرح راجستھان میں کانگریس کی کامیابی کو اتفاقتہ قرارنہیں دیاجاسکتا ۔ یہ نتائج بی جے پی کے لئے نوشتہ دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اسے کانگریس کی واپسی پر قیاس کرنا قبل ازوقت ہوگا۔ البتہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ مودی کی مقبولیت کے باوجود پارٹی سے عوام کی دوری بڑھی ہے۔ راہل گاندھی کے برعکس مودی اپنے القابات کے تئیں اسم بامسمی ثابت ہوئے ۔
وہ آج بھی زور خطابت سے لوگوں کو سبز باغ دکھاکر اپنا الو سیدھا کرتے ہیںیا عالمی لیڈروں کی صف میں شامل ہونے والے غیر ملکی دوروں پر نظر اتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو 125کروڑ ہندوستانیوں کا ’’پردھان سیوک‘‘ بتاتے ہیں لیکن عوامی او رقومی مسائل پر شاذ ونادر زبان کھولتے ہیں اور جب بولنے پر مجبور ہوتے ہیں تو ان کے بھکتوں پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آیا جنہوں نے پورے ملک میں اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف تشدد برپا کررکھا ہے ورنہ کیاوجہہ ہے کہ مودی ڈیولپمنٹ کا راگ الاپتے ہیں تو بھگوا بریگیڈ قتل وغارتگری کا تانڈو کرنا ہے ۔ مودی سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرے دیتے ہیں تو ان کے گرگے سماج کو مذہب او ردات پات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔
مودی اچھے دبوں کا مژدہ سناتے ہیں تو بھگوائی غنڈے اسے اقلیتوں اور دلتوں کے لئے ڈراؤنے خواب میں بدل دیتے ہیں ۔ مودی ائین کو ہندوستان کی مقدس کتاب کادرجہ دیتے ہیں تو انتہا پسندوں کو اس کی خلاف ورزی میں کوئی تامل نہیں ہوتا اور ایک مرکزی وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم ائین بدلنے ائے ہیں۔سال2013میں مظفر نگر فساد نے لوجہاد‘ گھر واپسی‘ بہولا ؤ بیٹی بچاؤ جیسی تحریکوں کو جنم دیا تو مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بی جے پی ریاستوں میں امتناع کلچر کو فروغ دیا جو بیف پر امتناع سے ہوتا ہوا لوگوں کے رہن سہن او رکھان پان تک جاپہنچا تعلیم وتاریخ اور تہذیب وثقافت کے نام پر آپ کو بتایاجارہا ہے کہ آپ کو کیا پڑھنا ہے او رکونسی فلمیں دیکھنی ہیں ۔
وندے ماترم کے قضیے کو نئی زندگی دی جارہی ہے ۔ دکھ کی بات یہ ہے ان تمام باتوں کو حب الوطنی کے نام پر کیاجارہا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں پر ملک دشمنی او رغداری کا الزام لگتے دیر نہیں لگتی ہے۔ جنوری 26کو کاس گنج کے مسلم اکثریتی علاقے میں جو کچھ ہوا وہ ہندوتوا برانڈ نیشنلزم کی ننگی جارحیت کا غمازتھا۔ مسلمانوں نے اپنے علاقے میںیوم جمہوریہ منانے کی تیاری کر رکھی تھی کہ سنگھ پریوار کے غنڈے موٹر سیکل پر سوار بھگوا اور ترنگا جھنڈا اور بندوقیں لہراتے ہوئے علاقے میں وار د ہوئے ‘ اشتعال انگیز نعرے لگائے ‘ تقریب کے لئے لگائی گئی کرسیوں کو کھدیڑ او رمسلمانوں کے اعتراض پر مارپیٹ اور پتھربازی پر اتر ائے ‘ جس نے جلد ہی فرقہ وارنہ رخ اختیار کرلیا۔
فائرینگ میں چندن گپتا نامی نوجوان کی موت ہوگئی اس خبر کے پھیلتے ہی فسادیوں نے اطراف کے علاقوں میں مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنانا شروع کردیا جس میں پولیس نے پورا تعاون دیا تقریبا پانچ دن بعد حالات معمول پر ائے لیکن کشیدگی باقی ہے ۔ سنگھ نواز الکٹرانک میڈیا نے فساد کے لئے مسلمانوں کو یہ کہہ کر ذمہ دار ٹھرایا کہ انہوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ چشم دید گواہوں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان مردہ باد جیسہ نعرے لگانے کو نیارحجان قراردیا۔ سہارنپور کی ایک ضلعی افسر رشمی ورون نے انکشاف کیا کہ چندن کو کسی دوسرے یا تیسرہ فرقہ کے لوگوں نے نہیں مارا بلکہ کیسری‘ سفید او رہرے رنگ کی آڑ میں خود کو بھگوا نے مارا ہے۔ ہم ان افسروں کی جرات کو سلام کرتے ہیں۔
اسی طرح کا بیان ایس پی لیڈر پروفیسر رام گھوپال یادو نے دیا جس پر یوپی کے سابق ائی جی دارا پوری کی قیادت میں تشکیل دی گئی فیکٹ فائنڈینگ رپورٹ نے تصدیق کی مہر ثبت کردی۔رپورٹ نے چندن کی موت کے سلسلے میں سلیم کی گرفتاری پر بھی سوال اٹھایا جو موقعہ واردات پر موجود ہی نہیں تھا۔ ان سب کے باوجود یوگی حکومت کی بدنیتی اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے فساد کی انکوائیری کے لئے پولیس افسران پر مشتمل ٹیم تشکیل دی ہے ۔ لیپا پوتی کے نام پر اس ٹیم کی رپورٹ میں کیاہوگا اس پر دماغ پاشی کی ضرورت نہیں۔
یہ سب دکھاوا ڈھکوسلہ سنگھ پریوار کی مسلم دشمن مہم کاحصہ ہے۔ لیکن یہاں ہم ایک او ررحجان کا ذکر ناگزیر سمجھتے ہیں سنگھ پریوار والوں نے چندن کو شہید کا درجہ اور اس کے خاندان والوں کو پچاس لاکھ روپئے معاوضہ دینے کی مانگ کی ہے۔ اس سے پہلے محمد اخلاق ے قتل کے سلسلے میں گرفتار ایک ملزم کی بیماری میں موت پر جاس کی لاش کو ترنگے سے لپٹے ایک ائیر کنڈیشن تابوت رکھا گیا اور اس کے خاندان والوں کو لاکھوں روپئے معاوضہ دیاگیا۔مودی کے چار سالہ دور کی اونچی دکان پھیکا پکوا ن سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
اگر وزیر اعظم کو غیر ملکی دوروں سے فرصت ملی تو انہیں گھر کی خبر لینی چاہئے تب کہیں ان کا ’ میک ان انڈیا‘ کا خواب پورا ہوگا کیونکہ سرمایہ کاری کے لئے جس ساز گار اور پرامن ماحول ‘ انفراسٹکچر اور سہولتوں کی ضرورت ہے وہ مودی بھکتوں کے ’ مسلم مکت بھارت‘ میں مفقود ہے او ربعید نہیں کہ 2019کا الیکشن مودی کا واٹر ثابت ہو