مندروں کی دوڑ۔ نرم ہندوتوا راہول گاندھی کے لئے ایک بڑی مشقت

راہول گاندھی مندروں کی دوڑلگارہے ہیں تاکہ ان کی پارٹی اور والد ہ سونیا گاندھی کو ’’مسلم حمایتی‘‘ ہونے کی شبہہ جوبی جے پی پارٹی نے تیار کی ہے اس کو غلط ثابت کرسکیں۔ پچھلے سال ڈسمبر میں گجرات کے اندر یہ فارمولہ کارگرد ثابت ہوا اور نریندر مودی کی نگرانی میں بی جے پی کے پندرہ سالہ دور اقتدار کے باوجود بی جے پی کی مقبولیت کو گھٹانے میں وہ کامیاب رہے۔

کرناٹک میں بھی راہول گاندھی نے منادر کے دورے کئے خاص طور پر اپنے تین ماہ کے طویل دوروں کے دوران انہوں نے لنگایت مٹھوں پر ماتھا ٹیکہ مگر اس مرتبہ سوال یہ پیدا ہوگیا کہ ان کی یہ حکمت عملی کس حد تک کامیاب رہے اور بی جے پی کے مقابلے ان کی پارٹی نے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ریاست کے فرقہ وارانہ نوعیت کے کچھ حصو ں میں کانگریس نے اپنے سربراہ کے مندروں کے دوروں کو بنیاد بناکر کام کیاہے۔

یقیناًراہول گاندھی نے کہاہے کہ بی جے پی ان کے مندروں کے دوروں سے کافی پریشان ہے۔راہول کے ’’ نرم ہندوتوا‘‘ کی شبہہ کا اثر سدارامیہ حکومت پر پڑا ہے جس نے لنگایت گروپ کو اقلیتی موقف فراہم کرنے کی سفارش کا کھیل کھیلا تھا۔ اس کھیل میں بی جے پی نے جوابی طور پر کانگریس کے اس کوشش کو ہندوؤں کے درمیان تقسیم کی پہل قراردیتے ہوئے لنگایت گروپ کے لیڈر بی ایس یدوراپا کو چیف منسٹر کا امیدوار بنادیا جو ریاست کا سب سے بڑا عہدہ ہے۔

بھگوا پارٹی جس میں طاقت وزیراعظم نریندر مودی بھررہے ہیں یہی نہیں رکہ اور اس میں ملاوٹ کرتے ہوئے سدارامیا حکومت کو ٹیپوسلطان کی یاد منانے پر ’’ مفاد‘‘ کی سیاست کا مورد الزام ٹہرادیا۔ مودی نے بذات خود اپنی ریالیوں میں اس مسئلے کو اٹھایا۔اس کے علاوہ پارٹی نے متنازع مسلم تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر بھی نرم رویہ رخ اختیار کرنے کاچیف منسٹر پر الزام عائد کیا۔

ہوسکتا ہے کہ کانگریس کے لئے ماحول کچھ او رخراب کرنے کے لئے جیل سے ’’ بے قصور‘‘ اقلیتوں کو رہانے کرانے کی بات کا بھی انتخابات میں سہارا لے کر پارٹی کو شرمندہ کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ اس طرح کی قیاس راہول گاندھی کی مندر دوڑ میں اثر انداز ہوسکتے ہیں۔