ممتا کا محاذ۔ قابل قدر آغاز۔ بقلم شکیل شمسی

آج کلکتہ میں اپوزیشن پارٹیو کے درجنوں لیڈروں کو یکجاکرکے ممتا بنرجی نے بی جے کو یہ بتادیا ہے کہ لوک سبھا کے انتخابات میں ان کے کیاہونے والا ہے۔ اس ریالی کی خاص بات یہ رہی ہے کہ اس میں شتروگھن سنہا‘ یشونت سنہا او رارون شوری جیسے رہنماؤں نے بھی شرکت کی جوماضی میں بی جے پی کابینہ کے وزیررہ چکے ہیں۔

ان تینوں نے بہت سخت الفاظ میں مودی یمومت کی مذمت کرکے یہ بتادیا کہ بی جے پی میں اندر ہی اندر مودی کے خلاف لاوا پک رہا ہے اسی کا ایک نمونہ یہا ں دیکھا جارہا ہے ۔

اس عظیم الشان جلسے میں مسلمانوں کی نمائندگی بدرالدین اجمل ‘ فاروق عبداللہ ‘ عمر عبداللہ ‘ کنور دانش علی نے کی ‘ لیکن اس ریالی میں کچھ اہم چہروں کی عدم موجودگی بھی کھٹکتی رہی ۔

چندرشیکھر راؤ‘ جگن موہن ‘ نوین پٹنائک‘ اور اسد الدین اویسی بھی اگر ممتا کے محاذ میں شامل ہوتے تو بات کچھ او رہی ہوتی‘ لیکن یہ سب کے سب بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس سے بھی مخاصمت رکھتے ہیں اس لئے انہو ں نے کنارہ کشی میں ہی بہتری سمجھی ‘ لیکن اس ریالی سے ایک بات تو طئے ہوگئی کہ تیسرا محا ذ بنانے کی جو کوششیں چندرشیکھر راؤ کررہے تھے وہ دھرام سے نیچے گر گئیں

۔ملک کی تقریبا سب ہی سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی نے اس بات کو ثابت کردیا کہ سب لوگ ایک مشترکہ محاد بنائے جانے کے خواہاں ہیں تاکہ ملک کو فرقہ پرستی کے عفریب سے آزاد کیاجاسکے‘ مگر فرقہ پرستوں کو اقتدار سے محروم کرنے کے لئے فقط ایک ریالی کرنا ہی کافی نہیں ہے ۔

سب ہی پارٹیوں کو اس اتحاد کا مظاہرہ عملی طور پر بھی کرنا ہوگا۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کہ کانگریس‘ عام آدمی پارٹی‘ بہوجن سماج پارٹی او رسماج وادی پارٹی کے رہنما اسٹیج سے دھاڑ تو ساتھ ساتھ ہی لگائے لیکن جب انتخابات کی بات ائے تو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے سے بھی انکار کردیں۔

ہمارے خیال میں اس کامیاب ریالی کے بعد کانگریس کی اعلی قیادت کو بھی متحرک ہوجانا چاہئے او راتحاد کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔

ہمارا تو یہی مشورہ ہے کہ سونیاگاندھی اور راہول گاندھی خود اس معاملے میں پہل کریں اور یوپی میں مایاوتی او راکھیلیش سے دہلی میں کجریوال سے آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کریں او ریوپی ودہلی میں سکیولر اتحاد کو مضبوط کرنے کے لئے براہ راست گفت وشنید کریں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کانگریس کی اعلی قیادت نے یوپی جیسے اہم ترین صوبے کے بارے میں اکھیلیش یادو او رمایاوتی سے کوئی بات نہیں بلکہ کانگریس کی قیادت کے رویہ سے ایسا محسوس ہوہا ہے کہ جیسے وہ اتحاد کے موڈ میں نہیں ہے۔

ایسا ہی رویہ اچانک دہلی میں بھی دیکھنے کومل رہا ہے ۔ یہاں کانگریس کی قیادت کو لگ رہا ہے کہ شیلاڈکشٹ کی واپسی کے بعد کانگریس کے اچھے دن آگئے ہیں۔ شائد کانگریس کے صوبائی لیڈر یہ بھول گئے ہیں کہ عام آدمی پارٹی نے شیلا دکشٹ کیق یادت والی کانگریسی سرکار کو زبردست شکست دی تھی او رکانگریس کے صرف اٹھ ممبران اسمبلی رہ گئے تھے اور پھر جب شیلا دکشٹ چلی گئیں تو اسمبلی میں کانگریس کی نمائندگی صفر ہوگئی تھی۔

ہمیں حیرت ہے کہ بہت سے کانگریسی کھلے عام اسبات کی مخالفت کررہے ہیں کہ عام آدمی پارٹی کے ساتھ ملک کر الیکشن لڑاجائے یاتو انہوں نے عوام کی رائے نہیں دیکھی ہے یا کسی نے خوش فہمی کے پھول سنگھا کر ان کے ہو ش وحواس چھین لئے ہیں یاپھر وہ بھول گئے ہیں کہ 2014کے الیکشن میں بی جے پی نے ساتوں سیٹوں پر کانگریس اور عآپ کا صفایا کردیاتھا ۔

آج کی ریالی میں کانگریس کے لیڈر ملکاراجن کھڑگے اور ابھیشیک منو سنگھوی بھی اسی اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے جس پر کجریوال ‘ اکھیلیش اور ستیش مشرا موجود تھے اور سب نے ایک ہی لہجے میں ایک ہی پارٹی کے خلاف تقریر کی ۔ جب ممتا بنرجی کے سجائے ہوئے اسٹیج پر سب ایک ساتھ بیٹھ کر ایک ہی زبان میں بول سکتے ہیں تو پھر ایک مشترکہ دشمن کا انتخابی میدان میں مل کر مقابلہ کرنے میں کون سی قباحت ہے؟

۔بہرکیف آج کولکاتہ میں ایک نئے سیاسی سورج کی روشنی دکھائی پڑی ہے اور اگر یہ سورج انتخابی میدان میں بھی اپنے تمام رنگوں کو بکھیرتا رہا تو پھر بی جے پی کے لئے اندھیروں کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔