حیدرآباد۔ یہ بڑی افسوس کی بات ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں مساجد سیاسی حکمت عملی کے مراکز میں تبدیل ہوگئے ہیں‘ وہ بھی اس طرح کی سیاست جو نفرت پر مبنی ہو‘اور ہندوستان کے سماج کو باٹنے کے نظریہ پر بات کی جائے۔
مگر افسوس کی بات ہے کہ قوم کے خودساختہ ٹھکیدار جب پیسوں کے عوض مسلمانوں میں ہندوؤں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی بات کررہے ہیں۔
جہاں تک اسلامی تعلیمات کی بات ہے تو امن‘ سلامتی اور آشتی کا پیغام مذہب اسلام نے دنیا بھر میں عام کیا ہے مگر موجودہ دور کے خودساختہ مفتیان‘ علماء‘اور شاہی امام برسرعام جس وقت پیسوں کے عوض فرقہ پرستوں کے منصوبوں کو کامیاب بنانے کی بات کرتے ہیں تب ان کے مسلمانوں ہونے پر ہی سوال کھڑا ہوجاتا ہے۔
ایسی ہی ایک شخصیت کلکتہ کی شاہی ٹیپوسلطان مسجد کے امام خودساختہ عالم نورالرحمن برکاتی نے ٹائمز ناؤ کے اسٹینگ اپریشن میں یہ واضح طورکہتے نظر آرہے ہیں کہ ’’ اگر بی جے پی مجھے پیسے دیتی ہے تو وہ نہ صرف مغربی بنگال بلکہ ملک بھر میں بی جے پی موافق ماحول پید ا کرسکتے ہیں‘‘ ۔
مذکورہ اسٹینگ اپریشن میں متنازعہ نور الرحمن برکاتی کہہ رہے ہیں کہ ’’ پانچ کروڑ کے عوض آسانی کے ساتھ پانچ لاکھ مسلمانوں کو جمع کروں گا‘‘۔
یہ بڑی تشویش کی بات ہے کہ نورالرحمن جیسے خودساختہ عالم دین اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں کی وجہہ سے نہ صرف مغربی بنگال بلکہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی شبہہ کو متاثر کررہے ہیں۔
ٹائمز ناؤ کے اس اسٹینگ اپریشن میں برکاتی کہہ رہا ہے کہ’’ جامعہ مسجد دہلی کا شاہی امام بخاری ہو یا پھر ٹیپوسلطان مسجد کا برکاتی ‘ اگر کوئی سیاسی پارٹی انہیں پیسے دیتی ہے تو وہ اسکی حمایت میں سڑکوں پر ضرور اترے گا اور ساتھ میں لاکھوں مسلمانوں کے سروں کا سمندر بھی ہوگا‘‘۔
اس ویڈیو میں برکاتی کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ’’ جو پیسے سیاسی پارٹی ہمیں دے گی وہ پیسے اپنے لئے نہیں بلکہ ریالیوں میں آنے والے مسلمانوں میں بانٹے جائیں گے‘ او رکچھ پیسے میڈیا کو بھی دئے جائیں گے‘‘ ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں پیسے بانٹنے کی جو بات کی جارہی ہے اس سے مسلمانوں کی پسماندگی کا اظہار ہورہا ہے جبکہ میڈیا میں پیسے بانٹنے کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ تشہیر کے لئے میڈیا کو بھی خریدنے کی بات برکاتی کررہا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل نورالرحمن برکاتی نے ہندوستان میں جہاد کا انتباہ دیاتھا۔
پچھلے سال مئی کے مہینے میں ایک بیان دیتے ہوئے نور الرحمن برکاتی نے کہاتھا کہ’’ اگر ہندوستان کو ہندو راشٹرا قراردیا گیا تو وہ یہاں پر جہاد کا اعلان کردیاجائے گا‘‘۔
برکاتی کے اس بیان کے بعد ٹیپوسلطان مسجد کمیٹی نے انہیں شاہی امام کے منصب سے ہٹادیاتھا۔اتنا ہی نہیں نوٹ بندی کے موقع پر بھی نورالرحمن برکاتی نے وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف فتوی جاری کیاتھا۔
اس کے علاوہ اپنی گاڑی سے لال بتی ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے بھی برکاتی نے وزیر اعظم مودی کو کھلی دھمکی دی تھی اور جہاد کا اعلان کیاتھا۔
پچھلے چار سالوں میں مختلف ٹیلی ویثرن چیانلوں کے مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے جس طرح کی نفرت اور اشتعال انگیزی برکاتی نے پھیلائی ہے اس کی نظیر سابق میں کہیں نہیں ملتی۔
کئی مرتبہ برکاتی نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ ان کے بی جے پی منسٹر س سے قریبی تعلقات ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں واجپائی حکومت کی تائید وحمایت کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت کی بی جے پی سے کافی قریب تھے۔
ٹائمز ناؤ کی جانب سے کئے گئے اسٹنگ اپریشن میں جس طرح کی باتیں برکاتی نے کی ہیں اور سابق میں جس طرح کے بیانات برکاتی نے دئے ہیں اس کے بعد اس با ت کا شک اور بھی مضبوط ہوجاتا ہے کہ وہ کسی ایک سیاسی پارٹی کے ایجنڈے کو فروغ دیتے ہوئے ملک او ریاست مغربی بنگال میں نفرت کی سیاست کو پروان چڑھانے کے لئے فرقہ پرست طاقتوں کہ آلہ کار کے طور پر کام کررہے ہیں۔