مسلم اکثریتی ضلع مرشد آباد میں غریبی اور بھوک کاسامراج 

کولکتہ۔ مغربی بنگال کی راجدھانی کلکتہ شہر سے 230کیلومیٹر کی دوری پر واقع مرشد آباد ضلع کو گرچہ اٹھارویں صدی میں بنگال کی راجدھانی ہونے کا شرف حاصل رہا ہے تاہم 2006میں وزارت پنچایت راج کی رپورٹ کے مطابق ملک کے 640اضلاع میں سے 250اضلاع پسماندہ ترین ہیں جن میں مرشد آباد ضلع بھی شامل ہے۔

نیشنل فیملی ہلت سروے کی2015-16کی رپورٹ کے مطابق مرشد آباد ضلع میں کم سنی میں شادی کی شرح39.9فیصد ہے جب کہ قومی سطح پر یہ شرح 11.9فیصد ہے ۔

مرشد آباد ضلع میں تین پارلیمانی حلقہ ہیں‘ بہرام پور‘ مرشد آباد اور جنگی پور۔ جن میں مرشدآباد او رجنگی پور میں تیسرے مرحلے کی رائے دہی 23ایریل کو مقرر ہے ۔

ان تینوں سیٹوں پر جیت حاصل کرنے میں سیاسی جامعتوں نے پوری قوت صرف کردی ہے مگر انتخابی مہم کے دوران مرشد آباد کی غربت ‘ روزگار او ردیگر مسائل غائب ہیں۔

صرف جذبات باتیں کی جارہی ہیں۔ بہرام پور سے جنگی پور کی طرف جانے والی نیشنل ہائی وے نمبر 34کے کنارے بڑی مکانات ‘ عمارتیں اور کچھ کارخانہ نظر آتے ہیں ۔ اسے دیکھ کر یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ مرشد آباد کا شمار ملک کے پسماندہ ترین اضلاع میں کیوں ہوتا ہے  مگر ساگر دھلی بلاک میں نیشنل ہاوے محض 500میٹر کے اندر واقع جوٹ کمل گاؤں اپنی پسماندگی کی منھ بولتی تصویر ہے ۔

گروپ کی شکل میں بیڑیاں بنارہی خواتین کی کہانیاں سن کر منھ میں کلیجہ آجائے۔

گنگا ندی کنارے واقع مرشد آباد ضلع ایک ممانے میں سونے اور چاندی کی ایمبوائیڈری کے لئے مشہور تھا مگر وقت تبدیل ہوچکا ہے ۔

روایتی فنکاری کی جگہ ماڈرن تکنیک نے لیاہے اور اس لیے انڈسٹری یہا ں سے ختم ہوچکی ہے۔

سال 2011کی مردم شماری کے مطابق مرشد آبا د کی ضلع کی شرح آبادی 7ملین ہے ۔ مرشد آباد ضلع اب بیڑی انڈسٹری کے لئے مشہور ہوچکا ہے اور 90فیصد کام کرنے والی خواتین او بچے ہیں۔

جنگی پور میں بیشتر گاؤں کے بیشتر مکانات میں خواتین بڑی لپیٹتے ہوئی پائی جاتی ہیں مگر رات دن کی محنت کے باوجود یہ کام ان خواتین کی زندگی میں روشنی نہیں لاسکی ہے۔

یواین ائی سے بات کرتے ہوئے جوٹ کمال گاؤں کی پچاس سالہ بی بی فاطمہ نے کہاکہ ایک ہزار بیڑی بنانے کی مزدوری120روپئے ملتے ہیں ‘ دن بھر میں مشکل سے ہزار بیڑیاں بن پاتی ہیں۔

ظاہر ہے کہ 120روپئے یومیہ آمدنی سے پانچ آدمی کے پریوار کو نہیں چلایاجاسکتا ہے۔

اس لئے ساتھ میں بیٹیاں بھی کام کرتی ہیں۔ بی بی فاطمہ نے بتایا کہ اس معاوضہ میں پندرہ روپئے دلال کا ٹ لیتا ہے ۔ ہمارے ہاتھ صرف 105روپئے آتے ہیں ۔

سال 2000میں یہاں پر اسپتال شروع ہوا تھا تب سے لے کر اب تک یہاں نہ تو کوئی سرجن ہے اور نہ لیاپ کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں