مبینہ گاؤ ذ بیحہ کرنے والے ۔ ساڑھے تین سال کی جیل کے بعد تین معصوم بشمول دوبہنوں کو ملی ضمانت

حیدرآباد۔مبینہ گاؤ ذبیحہ کے الزام میں ساڑھے تین سال قید میں گذارنے کے بعد ضلع مظفر نگر کے کھاتوالی علاقے کی تین نابالغ بشمول دوبہنیں ضمانت پر رہا کردئے گئے۔

جبکہ ہزاروں مقدمات سیاسی قائدین بشمول چیف منسٹر پر درج ہیں جس سے کچھ ماہ قبل دستبرداری اختیار کرلی گئی ہے وہیں تین معصوم کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیاگیا

ایک لڑکی تیرہ سال کی تھی جبکہ گرفتار ی کے وقت دوسری لڑکی17سالہ کی تھی جب انہیں29ڈسمبر2017کو ایک نابالغ لڑکے ساتھ گاؤں کشہ اور دھاوا کرنے والی پولیس ٹیم پر حملے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیاتھا۔ مذکورہ لڑکیوں کے ہمراہ ان کی ماں شہزادی‘ ایک 15سالہ چچازاد بھائی‘ چچا شہزاد احمد اور دوقالاؤں افسانہ اور ریشما او ران کے پڑوسی محمد اشفاق کو بیٹے مہتاب کے ہمراہ گرفتار کرلیاگیا۔

حالانکہ انہیں فبروری میں پیش ائے اقدام قتل کے کیس میں ضمانت پہلے ہی ملی تھی ‘ نچلی عدالت نے گاؤذبیحہ معاملے میں ضمانت دینے سے صاف انکار کردیاتھا۔ آلہ آباد ہائی کورٹ نے27مارچ کو گائے معاملے میں بھی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں مزید قید سے راحت دیدی

دونوں کے ادھار کارڈ کے مطابق ایک کی تاریخ پیدائش جنوری2001او ردوسرے کی جنوری2005تاہم ایف ائی آر میں پولیس نے 21اور19سال عمر لکھتے ہوئے انہیں بالغ قراردیکر عام عدالت میں پیش کردیا۔ادھار کارڈ بتانے پر عہدیدار نے کہاکہ دونوں کی جسمانی ساخت دیکھ کرانہیں بالغ سمجھا گیاہے۔

اس وقت جب دومسلم لڑکیو ں کی گرفتاری عمل میں ائی اور انہیں عام جیل کو تین ماہ کے لئے بھیج دیاگیا ہے اس وقت گھر والے دونوں کے ادھار کار ڈ لے کر در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے تھے تاکہ عہدیدارو ں کو ثابت کیاجاسکے وہ دونوں بالغ نہیں ہیں اور انہیں عام جیل میں نہیں رکھا جائے مگر کسی نے نہیں سنا اور نہ ہی نچلی عدالت نے ان کی ضمانت منظور کی۔مکمل تین ماہ مظفر نگر جیل میں گذارنے کے بعد جب الہ آبا دہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت منظور کئے جانے کے بعد ہفتہ کے روز دونوں جیل سے باہر ائے۔

جمعہ کے روز صبح کھاتوالی پولیس نے نو لوگوں کوہراست میں لیاتھاجس میں دونابالغ لڑکیا ں اور تین عورتیں شامل تھے او ران پر گاؤ ذبیحہ کا الزام عائد کیاگیاتھا۔ پولیس کا دعوی ہے کہ اس نے دس کنٹل میٹ اور گوشت کاٹنے کا سامان بھی گھر سے برآمد کیا ہے۔

چار دیگر ملزمین موقع سے فرار ہوگئے۔ پولیس کا کہناہے ان میں سے دیگر دو خواتین کوبھی حراست میں لے لیاگیا ہے۔ٹائمز کی خبر کے مطابق مذکورہ لڑکی نے کہاکہ ’’ ہم کھیل کود کے لئے بھی اپنے گھر کے باہر تک نہیں گئے تھے۔

مگر بڑی آسانی کے ساتھ ہمیں گاؤ کشی اور اقدام قتل کے کیس میں جیل میں بند کردیاگیا۔ہم سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ آخر کیاہورہا ہے۔ اب بھی اس صبح کو یاد کرکے خوفزدہ ہوجاتے ہیں جب ہمیں جیل میں ڈالا گیاتھا‘‘۔

چھوٹی بہن کا کہنا ہے ’’ جب ہم نے اپنے بڑوں کی طرف دیکھا تو وہ خود ہماری طرح ڈرے او رسہمے ہوئے تھے جب پولیس گھر میں داخل ہوئی‘‘۔

جیل میں گذارے لمحات کے مطابق اس نے کہاکہ ’’ ہمیں عورتوں کے حصہ میں رکھا گیاتھا وہاں پر ہم پورا دن زمین پر بیٹھتے یا لیٹتے تھے‘ وقت مانورک گیاایسا لگ رہاتھا‘‘ دوسری بہن نے خاموش کھڑی سب باتیں سن رہی تھی۔

گھر والے گرفتاری کے باعث دونوں کی شادی کے لئے پریشان ہیں‘ حالانکہ لڑکیاں چاہتی ہیں وہ تعلیم حاصل کریں۔بڑی بہن نے ٹائمز سے کہاکہ ’’ اگر ہم تعلیم یافتہ ہوتے تو ہم پولیس سے بحث کرتے اور کہتے ہیں گرفتار غیر قانونی ہے‘‘۔

لڑکی کے چچا حافظ حسین نے کاکہاکہ’’ میں واحد تھا پورے خاندان میں جس کو جیل میں نہیں ڈالا گیا او راسی وجہہ سے میں ان کی ضمانت کے لئے کاروائی کرسکا‘‘