بنگال میں ٹی ایم سی او ربی جے پی کے درمیان سخت سیاسی اس وقت عدالت میں پہنچ گیا جب ریاستی حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس پر بی جے پی کو رتھ یاترا نکالنے کی منظوری دینے سے انکار کردیاہے۔ ریاستی کے سیاسی حالات پر بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ راجیہ سبھا روپا گنگولی نے اکھیلیش سنگھ سے بات کی ہے ۔ جس کے کچھ اقتباسات یہاں پر پیش کئے جارہے ہیں۔
مغربی بنگال۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ٹی ایم سی اور بی جے پی کے درمیان دورایاں کافی ہیں مگر یہ زمینی حقیقت نہیں ہے۔ جو آنکھوں کو دیکھائی دے رہا ہے اس سے کہیں زیادہ ہے۔عام جگہوں پر ٹی ایم سی کے غنڈوں کا خوف طاری ہے۔ بلا خوف وخطر لوگ ٹی ایم سی کو ووٹ دے رہے ہیں۔
جہاں پر بھی صاف او ر شفاف الیکشن ہوئے وہاں بی جے پی نے جیت حاصل کی ۔ آج کے توقعات کے ہندوستان میں باشعور سیاسی ماحول میں ٹی ایم سی کو چالیس فیصد سیٹوں پر جیت حاصل کرنا مشکل ہے؟آپ کی پارٹی کو مضبوط کرنے کا سنہری موقع ہے مگر ٹی ایم سی کے غنڈوں اس سے آپ کو محروم کررہے ہیں۔
لوگوں کو توقع تھی کہ سی پی ایم کے بعد ممتا بنرجی مضبط تبدیلی اور بہتر حکمرانی کریں گی۔ اب لوگ کہہ رہے ہیں سی پی ایم بہتر تھی۔ میں نے 2016میں 130کیلومیٹر کا پیدل دورہ کیا اور میں نے ہزاروں لوگوں سے ملاقات کی جنھوں نے شکایت کی کہ وہ کبھی انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔
پہلے وہ سی پی ایم تھی اور اب ٹی ایم سی ہوگئی ہے۔نوکری کے کارڈس اور ووٹرس کارڈس وہ لے جاتے ہیں اور الیکشن ہونے کے بعد واپس لوٹا دیتے ہیں۔
یہاں تک کہ پچھلے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو زیادہ توقع ہوگئی تھی۔ اس وقت ٹی ایم سی کے خلاف ناراڈا اور شاردھا اسکام کے الزمات بھی تھے مگر اس کوکوئی اثر دیکھائی نہیں دیا۔
شاردھا اسکیم کا کچھ حصوں میں گہرا اثر ہوا ہے۔ کچھ علاقوں میں سینکڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں مگر پوری بنگالہ پر اس کا اثر نہیں پڑا۔جیسا کہ میں نے پہلے ہی آپ سے کہاہے کہ لوگ سی پی ائی سے بیزار تھے اور انہیں ٹی ایم سی بہتر لگی۔میں خود کو حیران تسلیم کرتی ہوں۔
مگرمیں دیکھ رہی ہوں کہ پریشان حال اور مجبور ممتا سی پی ائی کے ساتھ کھڑی ہے۔ہم زمین سے جڑے ہیں۔ مغربی بنگال میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ تمام چیزیں ٹی ایم سی کیڈر سے وابستہ ہوگئی ہیں۔ تمام سرکاری دفاتر اب پارٹی دفتر میں تبدیل ہوگئے ہیں۔
میرے ساتھ بے رحمی کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہے اور میں ٹی ایم سی اور پولیس ساتھ ملکر اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے اس کی ایک مثال ہوں۔
بی جے پی کا ٹی ایم سی پر سیاسی تشدد کا الزام ہے جس میں ایک سو سے زائد لوگ مارے گئے اور اس میںآپ کی پارٹی کے 23لوگ بھی شامل ہیں۔تاہم ٹی ایم سی کا کہنا ہے کہ ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے بی جے پی یہ سب کچھ کررہی ہے؟
اگر بنگال میں تشدد کا اپنے مخالفین پر ٹی ایم سی الزام عائد کرتی ہے تو مجھے بہت غصہ آتا ہے۔آج ممتا وہی حربے استعمال کررہی ہیں جس کے ذریعہ سی پی ایم لوگوں میں ڈر او رذہنی طور پر خوف پیدا کرنے کاکام کرتی تھی۔ ممتا زمینی حقیقت سے واقف ہیں وہ جانتی ہیں کے لوگ ان سے بدظن ہوگئے ہیں۔ اور اب وہ جھوٹی الزامات کا استعمال بھی کررہی ہیں۔
مجوزہ لوک سبھا الیکشن کے لئے بی جے پی کے امکانات کیارہیں گے؟
ہم نے اس بات کا محسوس کیاہے کہ پچھلے کچھ سالوں تشدد کی وجہہ سے بنگال ایک پرسکون علاقہ باقی نہیں رہا ہے۔ ممتا نے سی پی ایم کے غنڈہ کلچر کو آگے بڑھایاہے۔
ریاست میں نوکریاں نہیں ہیں اور ٹی ایم سی نوجوانوں کو ہزار دو ہزار دے ایک گاڑی اور فون دے کر اپنے لئے کام کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔ نوجوانوں کو دئے جانے والے پیسوں سے کچھ فائدہ مل رہا ہے مگر وہ امن پسند لوگوں سے خوف زدہ ہے۔
تاہم ہمارے پاس ریاست بھر میں پارٹی حامیوں کا ایک نٹ ورک ہے۔ ہمیں بھروسہ ہے وہ لوگ اپنے غصہ کے اظہار میں سڑکوں پر نہیں نکلیں گے بلکہ اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے تاکہ ٹی ایم سی کو شکست دے سکیں۔لوگ 2019کا انتظار کررہے ہیں جب مرکزی دستے ہونگے ۔
ہم الیکشن کمیشن سے گذار ش کریں گے کہ وہ انتخابات کے پیش نظر بھاری فوجی دستوں کی تعیناتی کے ذریعہ لوگوں میں حوصلہ پیدا کریں۔ترقی اور روزگار کے متعلق لوگ ممتا بنرجی سے وضاحت مانگ رہے ہیں۔ ملک کے بڑے صنعت کاروں کا تعلق بنگال سے ہے مگر کتنے لوگوں نے ریاست میں سرمایہ کاری کی ہے؟۔
بی جے پی لیڈران نے کہاکہ آسام کے بعد بنگال میں این آر سی کا نفاذ عمل میں ائے گا۔ ممتا بنرجی نے اس کو بی جے پی کی منقسم کرو پالیسی قراردیا؟۔
ممتا اقلیتی ووٹ بینک پر نظر رکھ کر استحصال کی سیاست کررہی ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ کسی ایک کمیونٹی کی نہیں بلکہ پوری ریاست کی چیف منسٹر ہیں۔حال ہی میں انہوں نے کلکتہ میئر کے طور پر فرہاد حکیم کونامزد کیا‘ ا ب وہ دکشنیشوار مندر بورڈ کے سربراہ ہیں۔
وہ بتاسکتی ہیں کہ کیا انہیں اتنی اہم مندر کے بورڈ صدر منتخب کرنے کے لئے ہندو سماج سے کوئی نہیں ملا؟۔
میں آپ کو بتادینا چاہتی ہوں کہ بنگال عسکری طاقتوں کے لئے ایک راستہ بن گیا ہے اور ملک و ریاست کی عوام کو اب جاگنے کی ضرورت ہے۔