لال دروازہ مندر انتطامیہ نے درگاہ کی تزین نو کے ذریعہ ’ گنگا جمنی تہذیب ‘ کو زندہ کیا۔

حیدرآباد۔سارے ملک میں بڑھتی فرقہ وارانہ کشیدگی ایک طرف ‘ اور حیدرآباد میں فرقہ پرستی کو منھ توڑ جواب دینے کی تیاری ایک طرف ‘ یہاں پر فرقہ پرستی کے نظریات کو بلائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کے درمیان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کاکام کیاجارہا ہے اور ساتھ ملکر کانفرت اور جرم کے خلاف لڑنے کے عزائم کے ذریعہ سارے ملک کو پیغام بھی دیاجارہا ہے۔دکن کرانیکل کی رپورٹ کے مطابق پرانے شہر کی اکنا مادنا مندردیگر مذاہب کے لوگوں کے لئے حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چار ے کی ایک مثال بن رہی ہے۔

ریاست بھر میں بونال روایتی طور پر منایاجاتا ہے ۔ مگر تاریخی اکنا مادنا مندر کا بونال جشن اس وقت تکمیل نہیں ہوتا جب تک کہ مند ر کمیٹی کی جانب سے مندر کے سامنے ہی موجود ایک چھوٹی درگاہ پر حاضری نہیں دیتے۔مندر انتظامیہ کی جانب اس مندر کی تزین نو اور لائٹنگ کا کام کیاجاتا ہے اور اس کے علاوہ دس روزہ بونال تقاریب کے دوران مذکورہ درگاہ پر چادربھی پیش کی جاتی ہے۔مندر کمیٹی سکریٹری پی کرانتی نے بونال تقریب کے متعلق بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ مندر کی پینٹگ کے دوران ہم درگاہ کو بھی ہرا رنگ کرتے ہیں۔دس روزہ بونال تقاریب کے دوران ہم درگاہ پر چادر بھی پیش کرتے ہیں۔درگاہ مندر کے بلکل سامنے واقع ہے‘ اسی وجہہ سے ہم کا بھی خیال رکھتے ہیں۔

کبھی کبھی ایک مسلم خاتون یہاں پر آکر صاف صفائی کاکام کرتی ہے‘ باقی وقت میں ہم اس کی صفائی انجام دیتے ہیں‘‘۔انہوں نے مزیدکہاکہ ہم نے مندر سے کم اہمیت کے طور پر درگاہ کو کبھی بھی نہیں دیکھا‘ ہمارے لئے درگاہ کی صفائی بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے‘ مندر کا عملے دونوں کی صفائی کرتا ہے۔مسٹر کرانتی کمار نے کہاکہ ’’ وہ لوگ بناء کسی عذر کی ہرروزمندر او ردرگاہ دونوں کی صفائی کرتے ہیں۔ ان نے کے لئے یہ مذہبی فریضہ ہے کہ درگاہ او ر مندر دونوں کی صفائی کرتے ہیں‘‘۔

چنددن قبل ہوم منسٹر این نرسمہا ریڈی نے مندر کمیٹی کی جانب سے درگاہ پر چادر بھی پیش کی تھی۔مندر کمیٹی کے ایک دوسرے رکن جی نرنجن نے شہر کی غیر معمولی مذہبی روداری کی ایک او رمثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ ’’ جس ہاتھی پر ’ گھاٹم‘ لے جایاجاتا ہے اس کو نظام ٹرسٹ برسوں سے ہمیں فراہم کرتا ہے۔ ہاتھی رجنی کا استعمال بی بی کا علم لے جانے کے لئے بھی کیاجاتا ہے