اترپردیش میں ایس پی‘ بی ایس پی اتحاد کا بڑا فائدہ بی ایس پی کو ہوا ہے جس نے 2014اور 2019کے درمیان اپنی سیٹیں صفر سے دس تک پہنچادی ہیں۔
سماج وادی پارٹی (ایس پی) اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے اتحاد کو اترپردیش میں 2019کے لوک سبھا الیکشن میں بڑا کھیل تبدیل کرنے والا اور بی جے پی کے لئے خطرہ مانا جارہاتھا۔
لوک سبھا الیکشن میں بی ایس پی او رایس پی کا مشترکہ ووٹ شیئر 41.8فیصد رہا‘جس کے مقابلے میں بی جے پی اور اس کے ساتھ اپنادل(اے ڈی) کا ووٹ شینئر 43.3فیصد رہا۔
سال2014کے ایس پی او ربی ایس پی کے ووٹ شیئر کو ملاجائے تو اس وقت بی جے پی‘ اے ڈی کو73سیٹوں سے 37سیٹوں پر پہنچادیاہے۔ سال2019کے انتخابی نتائج نریندر مودی کی کیمسٹری نے بی ایس پی‘ ایس پی اتحاد کا حساب کتاب بگاڑ دیاہے۔
سال 2014کے مقابلے میں بی جے پی کو صرف نو سیٹوں کو نقصان ہوا ہے کیونکہ اس نے 2014کے مقابلے میں 7.2فیصد ووٹ 2019میں اضافہ کیاہے۔اترپردیش میں ایس پی‘ بی ایس پی اتحاد کا بڑا فائدہ بی ایس پی کو ہوا ہے جس نے 2014اور 2019کے درمیان اپنی سیٹیں صفر سے دس تک پہنچادی ہیں۔
اترپردیش میں بی ایس پی کے ووٹ شیئر میں جو اضافہ ہوا وہ صاف طور پر دیکھائی دے رہا ہے۔ایس پی سیٹوں کا حال بھی وہی رہا‘ وہیں بی جے پی اور کانگریس نے بالترتیب نو او رایک سیٹ پر2014کے مقابلے میں شکست کھائی ہے۔
تعجب خیز طور پر ایسا آواز سنائی دے رہی ہے کہ بی ایس پی جو اب کہہ رہی ہے کہ وہ عظیم اتحاد کے تجربے سے باہر ہوگی۔پارٹی نے اعلان کیاہے کہ اترپردیش کے گیارہ اسمبلی حلقوں میں ہونے والی ضمنی انتخابات میں وہ تنہا مقابلہ کرے گی۔
منگل کے روز بی ایس پی صدر مایاوتی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہاکہ”ہم سیاسی ضرورتوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اترپردیش میں لوک سبھا الیکشن کے نتائج میں سماج وادی پارٹی کے بنیادی ووٹ‘ یادو کمیونٹی نے ہماری پارٹی کی مدد نہیں کی۔
یہاں تک ایس پی کے مضبوط دعویدار بھی ناکام ہوگئے“۔ کتنے قابل اعتبار ہے یہ دعوی کہ ایس پی کے اہم ووٹرس نے 2019کے الیکشن کے دوران مدد نہیں کی ہے؟ یہاں پر ایسا کوئی راستہ نہیں ہے کہ کس طبقے نے ایک مخصوص پارٹی کوووٹ دیا ہے یانہیں ہے۔