تلنگانہ تحریک کے دوران عثمانیہ یونیورسٹی خطہ تلنگانہ کا احتجاجی مرکز بنا ہوا تھا‘طلبہ کی بے شمار قربانیوں کے نتیجہ ‘علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل حیدرآباد۔ تلنگانہ تحریک کے دوران علاقے تلنگانہ کا مرکز مانے جانی والی عثمانیہ یونیورسٹی ان دنوں تحدیدات کے گھیرے میں ہے۔ تلنگانہ تحریک کے دوران ہر معمولی واقعہ پر احتجاج کرتے ہوئے سارے ملک کی توجہہ اپنی جانب کھینچنے والا عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ کو حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے سے روک دیاجارہا ہے ۔ علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد نئی ریاست میں برسراقتدار آنے والی سیاسی جماعت تلنگانہ راشٹرایہ سمیتی سے عوام بالخصوص طلبہ کو کافی امیدیں وابستہ ہیں مگر پولیس کے عامرانہ رویہ کی وجہہ سے عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ احساس کمتری کاشکار ہورہے ہیں۔
فیس ریمبرسمنٹ‘ ہاسٹل چارجس کی اجرائی ‘ اوریونیورسٹی طلبہ سے جڑے مسائل کی یکسوئی کے لئے عام طور پر یونیورسٹی کی طلبہ تنظیمیں احتجاجی مظاہرے منعقد کرتے ہیں اور برسراقتدار حکمران جماعت ‘ چیف منسٹر کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے حکومت کاعلامتی پتلا بھی نذر آتش کرتے ہیں ‘ مگر جب سے ٹی آر ایس حکومت اقتدار میں ائے ہے اس قسم کی سرگرمیوں پر روک لگانے کی مذموم کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ نے علیحدہ ریاست تلنگانہ تحریک کے لئے جو قربانیاں دی ہیں ان قربانیوں کا کوئی بدل نہیں ہے۔
عام طور پر یونیورسٹی میں ہر سیاسی جماعت سے وابستہ ایک طلبہ تنظیم ہوتی ہے اسی طرح عثمانیہ یونیورسٹی میں بھی اے ائی وائی ایف‘ اے ائی ایس ایف‘ ایس ایف ائی‘ بی جے وائی ایم‘ اے بی وی پی ‘ این ایس یو ائی‘ ٹی آر ایس ایس یو کے بشمول بے شمار تنظیمیں جو یونیورسٹی میں جاری بدعنوانیوں اور طلبہ کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتے ہیں۔ جمہوریت میں اس طرح کے احتجاجیوں کو اجازت بھی دی ہے اور طلبہ کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی آواز کو احتجاج کے ذریعہ ایوانوں تک پہنچائیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس کی طاقت کااستعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی میں حکومتوں کی مخالف عوا م پالیسیوں کے خلاف ہونے والے احتجاج کو دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
عثمانیہ یونیورسٹی کی یہ تاریخ رہی ہے کہ انڈین یونین میں شامل ہونے کے بعد عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف برسراقتدار حکومت کے خلاف احتجاج کی شروعات یونیورسٹی کے وسیع وعریض میدان سے ہی ہوئی ہے ۔ تلنگانہ تحریک کو بام عروج پر لے جانے میں سب سے اہم رول عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ کا ہی تھا مگر آج وہی یونیورسٹی کے طلبہ کو حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے سے روکا جارہا ہے ۔
پیر کے روز دوپہر میں جب ایس ایف ائی کے طلبہ نے فیس ریمبرسمنٹ اور اسکالرشپ کے علاوہ دیگر مسائل پر تلنگانہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے اور حکومت کا علامتی پتلا نذر آتش کرنے کی تیاری کرہی رہے تھے پولیس کی تین گاڑیاں کے بشمول ایک بڑی ویان وہاں پر پہنچے گئے اور ایس ایف ائی طلبہ کے ہاتھوں سے علامتی پتلا چھین کرپولیس کی گاڑی میں ڈال دیاگیا۔
اس کے بعد متعلقہ پولیس عہدیداروں نے ایس ایف ائی کے طلبہ سے کہاکہ یونیورسٹی کے اندر کسی قسم کا احتجاج کرنے پر پابندی عائد ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پولیس نے اسبات کو فراموش کردیا کہ آج انہیں جو48فیصد فٹ منٹ مل رہا ہے وہ انہیں طلبہ کی جدوجہد کا نتیجہ ہے ۔
عثمانیہ یونیورسٹی کے ان بہادر طلبہ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جنھوں نے غیرعلاقائی حکمرانوں کی بربریت کو قبول کرنے کے لئے بجائے اپنی زندگی کی قربانی کو ترجیح دی مگر آج وہی طلبہ احتجاج کرنے سے قاصر ہیں۔ طلبہ تنظیموں کو اس بات کا جمہوری حق حاصل ہے کہ وہ عوام دشمن پالیسوں پر حکومت کے خلاف احتجاج کرسکتے ہیں اور طلبہ کو روکنا غیرجمہوری اقدا م ہوگا۔