شہر حیدرآباد 108برس کی تباہ کن طغیانی کی طرف رواں……………………؟

16سال بعد ریکارڈ بارش‘ تالابوں کے شکم پر تعمیرات ‘ راحتی اقدامات کے بجائے حکومت انجان

شہر فرخندہ بنیاد 108برس بعد کیا 36ویں تباہ کن طغیانی کی سمت رواں ہے؟ شہر حیدرآباد کی تاریخ میں ستمبر1908 ایک ایساسیاہ باب ہے کہ اسے فراموش نہیں کرنا ناممکن ہے ۔27 ستمبر 1908کی شب رود موسی میںآئی طغیانی نے50000لوگوں کو لقمہ اجل بنایا تھااور محکمہ سمکیات کی جانب سے جاری کردہ انتباہ کے مطابق 26ستمبر تک موسلادھار بارش کی پیش قیاسی کی جارہی ہے ۔1908میں ائی طغیانی ایک یا دوروز کی بارش کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ چار روز مسلسل ہلکی اور تیز رفتار بارش کے بعد27ستمبر 1908کی شب بادل پھٹ پڑنے کے سبب 28ستمبر 1908کو رودموسی کے کنارے موجود علاقوں میں قیامت صغری برپا ہوگئی تھی۔اور دوروز تک جاری رہنے والی اس طغیانی کے روکنے کے فوری بعد آصف جاہی حکمراں نے پرانی حویلی سے نکل کر عوامکے درمیان پہنچتے ہوئے مہاراجہ کشن پرشاد کو حکم دیاتھا کہ تمام شاہی محلات کو عوام کے لئے کھول دیا جائے تاکہ عوام کو تمام تر سہولتیں مہیاکروائی جاسکیں۔ شہر حیدرآباد پھر ایک مرتبہ انہی تورایخ اور ویسے حالات سے دوچار نظر آرہا ہے۔لیکن بادشاہت وجمہوریت کا فرق واضح طور پر محسوس ہونے لگا ہے۔ شہر میں گذشتہ چند یوم سے جاری بارش کی تباہ کاریاں اب تک پرانے شہر کی سمت نہیں پہنچیں لیکن نوآبادیاتی عالقوں میں بارش کی تباہ کاریوں کے سبب آ ج بھی لوگ بارش میں محصور ہیں جنہیں فوری امداد کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔

لیکن جمہوری حکمراں بارش رکنے کے بعد بہتے ہوئے نالوں کا معائنہ کرتے ہوئے یہ کہے رہے ہیں کہ اگر بارش تھم جاتی ہے تو ایسی صورت اندرون دو یوم حالا ت پر قابو پالیاجائے گا۔۔گذشتہ دویوم سے جاری بارش کے سبب پریشان حال عوام اور متاثرین کے درمیان میں ریاستی وزیر وزیربلدی نظم نسق مسٹر کے تارک راما راؤپہنچے اور عوام سے ملاقات کرتے ہوئے اس بات کاتیقن دیا کہ بارش کے رکنے کی صورت میں اندرون دویوم بازآبادکاری او رراحت رسانی کے عمل کو مکمل کرلیاجائے گا۔انہونے نظام پیٹ‘ کوکٹ پلی‘ صنعت نگر کے علاوہ قطب اللہ پورکے علاقوں کا دورہ کیا۔اس موقع پر عوام نے حکومت او ربلدیہ کی کارکردگیو ں پر شدید برہمی کا اظہار کیا او رکہاکہ بلدی عہدیدار اورعملہ وزراء کے ساتھ ہی متاثرہ علاقوں میں پہنچ رہا ہے ۔جبکہ متاثرہ علاقوں میںآج بھی بارش کاپانی جمع ہے جس کے سبب پانچ سو سے زائد افراد راحت کاری کیمپس میں قیام پر مجبور ہیں جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ماہ ستمبر 1908کی طغیانی کی یاد ہرسال منائی جاتی ہے اور عثمانیہ دواخانہ سے متصل افضل پارک میں موجود قدیم املی کے درخت کے پاس اس سلسلہ میں ایک تقریب کا بھی انعقاد ہوتا ہے ۔’’طغیانی ستمبر‘‘ کی یادکے ساتھ ہی اس درخت کے سہارے بچنے والے معروف حیدرآبادی شاعر حضرت امجد حیدرآبادی کا شعر

:ذہنوں میں کوند جاتا ہے

اتنے دریا میں بھی نہ ڈوبا امجد
ڈوبنے والوں کو تو بس چلو کافی ہے

یہ شعر آج حکومت وقت پر صادق آتا ہے جواتنی تباہ کاریوں کے باوجود غیبی مدد کے منتظرنظر آرہی ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ بارش رکنے کے بعد حالات پر کو معمول پر لانے کے اقدامات کئے جائیں گے ۔محکمہ آبرسانی نے جو تفصیلات جاری کی ہیں ان کے مطابق27ستمبر 1908کوہوئی بارش کے سبب طغیانی کے وقت صرف153.2ملی میٹر بارش ہوئی تھی اور اس کے بعد 2000میں241.5ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی اور اب 16سال بعد 24گھنٹے میں167.7ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ ماہرین کے بموجب تالابوں کے شکم میں تعمیرات شہر میں بہت بڑی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں لیکن شائدحکومت ان حالا ت سے واقف ہوتیہوئے بھی انجان بننے کی کوشش کررہی ہے۔