سہارنپور انکاونٹر میں فرضی تو نہیں؟۔ گولیوں کی آواز یں سنائی نہیں دی‘ رپورٹ اور کئے چیزیں غائب

پولیس کا الزام ہے سلیم عرف احسن نے صرف ایک کسان کو لوٹا تھا مگر اس پر گولی محض اس لئے چلائی کہ وہ گرفتاری کو نظر انداز کرنا چاہتے تھے۔
اترپردیش۔

کئی مجرمانہ واقعات میں مطلوب محمد سلیم عمر36سال کو25مارچ کے روز سہارنپور منڈی کے اندرگولی مار کر ہلاک کردیاگیا‘ مذکورہ اترپردیش پولیس کا کہنا ہے کہ جب سلیم کو چیک پوسٹ پر روکنے کی کوشش کی گئی تب اس نے ہمارے ایک افیسر پر فائیرنگ کی جس کے جواب میں ہم نے بھی گولیا ں چلائیں۔

پولیس کا الزام ہے سلیم عرف احسن نے صرف ایک کسان کو لوٹا تھا مگر اس پر گولی محض اس لئے چلائی کہ وہ گرفتاری کو نظر انداز کرنا چاہتے تھے۔مگر زمینی حقیقت جب انڈین ایکسپریس نے تلاش کی چوکنے والے حقائق سامنے ائے۔

منڈی میں متعین ہوم گارڈس نے گولیوں کی آواز نہیں سنی اور نہ ہی پولیس کو دیکھا۔سلیم نے کب اور کہاں پر پہلی مرتبہ گولی چلائی اس کے متعلق پولیس کے متعدد بیانات‘سلیم کو سرکاری طورپر ماخوذ کرنے سے قبل پولیس افیسر کے انعام کا اعلان ‘ اور میڈیکل رپورٹ کا غائب ہوجاناحیران کن باتیں ہیں۔

سہارنپور کے ایس ایس پی ببلو کمار کے دفتر سے جاری کئے گئے پریس نوٹ میں لکھا ہے کہ دولوگ چیک پوسٹ پر متعین تھے اور وہ منڈی میں تلاش کے لئے گئے۔

پریس نوٹ کے مطابق ’’ آج 25مارچ2017کو ایس ایچ او منڈی پولیس اسٹیشن وسمراٹ وکرم کالونی( ایس ڈبیلو اے ٹی) کے ہمراہ تلاشی کی جارہی تھی‘ ایک موٹرسیکل پر دولوگ سوار تھے دوسری طرف سے آرہے تھے جیسے ہی انہوں نے پولیس کو دیکھا تو منڈی میں گھس گئے۔

پولیس نے ان کا تعقب کیا اور موٹرسیکل پھسلنے کی وجہہ سے دونوں لوگ گر گئے‘‘۔ پریس نوٹ میں اس بات کا تذکرہ نہیں ہے کہ سلیم نے منڈی کے باہر پولیس پر فائرینگ کی گئی تھی‘ جس کے تصدیق منڈی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او مونیدر سنگھ نے کی جو اتوار کے روز پیش ائے انکاونٹر میں موجودتھے۔ انہوں نے کہاکہ’’سلیم کے متعلق پہلے سے ہم چوکنا تھا کہ اس نے کسان کے پاس سے ایک لاکھ کی رقم لوٹی تھی۔

تقریبا1:30کے قریب ہم نے موٹرسیکل پرسوار دولوگوں کو رکنے کے لئے کہاتو ان لوگوں نے ہم پر گولیا ں چلاتے ہوئے منڈی میں گھس گئے اور ہم ( ایس ڈبیلو اے ٹی) اور منڈی پولیس)نے ان کاتعقب کیا۔ منڈی میں کچھ روانڈ فائیرنگ ہوئی‘‘۔

پریس نوٹ میں لکھا ہے کہ موٹرسیکل پھسلنے کے بعد دولوگ زمین پر گرے اور اٹھ کر ایک دوسرے کے مقابل سمت دوڑ اور پولیس کو قتل کرنے کی ’’بیت‘‘ سے فائیرنگ کی ۔

پولیس نے اپنے بچاؤ میں فائیرنگ کی جس کی وجہہ ان میں سے ( جس کی بعد میں سلیم کی حیثیت سے شناخت ہوئی‘‘ گولیوں کے زخموں سے جانبرنہ ہوسکا۔

پولیس نے یہ بھی کہا کہ سلیم کا ساتھی اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔مگر منڈی میں رات کے اوقات میں نگرانی کے لئے متعین کئے گئے دو ہوم گارڈس جانیشوار اور سریش یادو نے کہاکہ نہ تو انہوں نے گولیوں کی کوئی آواز سنی اور نہ ہی پولیس کاحمل ونقل دیکھا۔

دونوں کا کہنا ہے اگلے روز نیوز پیپر کا مطالعہ کرنے کے بعد تک انہیں واقعہ کے متعلق کوئی جانکاری نہیں تھی۔

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے جانیشوار نے کہاکہ ’’ یادو اور میں پوری رات منڈی میں تھے مگر ہم گولی چلنے کی ایک بھی آواز نہیں سنی۔

ایسا کچھ بھی منڈی میں پیش نہیںآیا‘ ہم نے پولیس بھی نہیں دیکھی‘‘۔ اسٹنٹ کمپنی کمانڈر بھانور سنگھ انچارج ہوم گارڈس نے بھی کہاکہ وہ منڈی کے اندر پیش ائے کسی انکاونٹر کے متعلق نہیں جانتے۔ انہوں نے کہاکہ’’ دن کے اوقات میں جب ایک ٹائر پھٹا تھا‘ وہی آواز منڈی کے اندر ہم نے سنی تھی۔

ایسا ممکن نہیں ہے کہ اگر کوئی گولی اندر چلتی ہے اور کسی کو سنے نہیں ائے۔میں وہاں پر نہیں تھا مگر موقع پر موجود گارڈس نے کوئی آواز نہیں سنی‘‘۔ سہارنپور اگریکلچر پروڈیوس مارکٹ کمیٹی ( اے پی ایم سی )سکریٹری انل کمار نے کہاکہ منڈی کے اندر فائرینگ کے متعلق کوئی جانکاری نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ ’’منڈی کے اندر کوئی انکاونٹر نہیں ہوا ہے‘ ہوسکتا ہے وہ باہر ہوا ہوگا‘‘۔سہارنپور پولیس نے اس با ت کو قبول کرنے سے انکاکردیا ہے۔ ایس ایس پی ببلوکمار نے کہاکہ منڈی میں رات کے وقت کوئی موجود نہیں تھا۔انہوں نے کہاکہ ’’ادھی رات کے بعد وہاں پر کوئی نہیں رہتا۔

ایس ڈبیلو اے ٹی ٹیم لیڈر سنجے پانڈے جو اس رات موقع واردات پر موجود تھے نے کہاکہ’’واقعہ کے وقت میں وہاں پر موجود تھا ۔ منڈی کے اندر کوئی بھی نہیں تھا‘‘۔پریس نوٹ میں کہاگیا ہے کہ ایس ائی سچن شرما فائیرنگ کے دوران زخمی ہوگئے ۔

مگر سہارنپور سرکاری اسپتال میں شرما کے ایم ایل سی کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ان کے ریکارڈ پر مشتمل صفحہ کتاب سے پھاڑدیاگیا ہے۔ پی ایس بھتولا کے تحت آنے والے سہارنپور ضلع اسپتال کے ریکارڈ کی نگرانی کرنے والے اور چیف فارماسسٹ نے کہاکہ ’’ ایس ائی سچن شرما کو اسپتال لایاگیاتھا۔

ان ریکارڈ غائب ہوگیا ۔ پولیس اپنے ساتھ غلطی سے اصلی ایم ایل سی رپورٹ لے کر چلی گئی‘‘۔ انہو ں نے کہاکہ شرما کے زخموں کی نوعیت اسی وقت بتائی جاسکتی ہے جب رپورٹ واپس لاکر جمع کرائی جائے۔ سرکاری اسپتال کے بعد شرما کو میڈگرام اسپتال منتقل کیاگیا جو سات کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

میڈگرام اسپتال کے ڈائرکٹر ڈاکٹر اجے سنگھ نے کہاکہ’’سچن کے پیر پر زخم تھے جس کو یہاں پر لانے سے قبل ٹانکے دیدئے گئے تھے۔ صرف سوجن تھی ۔ اہم اعضاء میں کوئی بڑے زخم نہیں تھے۔ اس کودیکھنے کے بعد یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ گولی کا زخم ہے‘‘۔

پریس نوٹ کے مطابق سلیم اور اس کے ساتھی نے 24مارچ کے روز نواب سنگھ نامی ایک کسان ’’11بجے کے قریب‘‘ حسین پور گاؤں کے قریب گولی ماری تھی مگر دوڈھائی گھنٹے کے بعد نواب سنگھ کو اسپتال میں شریک کیاگیا۔

اسپتال 25کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ پولیس نوٹ کے مطابق سنگھ اپنے داماد کے گھر بینگنی گاؤں جارہاتھا۔ منوہرہ گاؤں میں نواب سنگھ نے کہاکہ ’’ رات دس بجے کے قریب یہ واقعہ پیش آیا۔ ان لوگوں کاارادہ مجھے مارنے کا نہیں تھا۔

مذکورہ دولوگوں نے مجھے روکا اور مجھ پر گولی چلائی۔ میں نے انہیں اپنا فون ‘ بیاگ او رموٹرسیکل حوالے کردیا‘‘۔ سنگھ کے مطابق بیس منٹ بعد اس نے ایک کار کو روکا ‘ اپنے ساتھ پیش آیا واقعہ سنایا اوراس نے پولیس اؤٹ پوسٹ کے قریب اسے لے جاکر چھوڑدیا۔ ریکارڈ کی نگرانی کرنے والے سرکاری اسپتال کے بھتولا نے کہاکہ ’’ ایم ایل سی کے مطابق نواب سنگھ 1:45کے قریب آیا جس کو گولی لگی تھی اور اسے ائی سی یو میں منتقل کردیاگیا‘‘۔

سارسوا ایس ایچ او یشپال ڈھاما نے کہاکہ ’’ واقعہ11بجے کے قریب پیش آیا اور پی سی آر کو11:45کے قریب جانکاری دی گئی۔ اؤٹ پوسٹ پر کوئی گاڑی موجود نہیں تھی اس لئے گاڑی کا انتظام کرنے میں کچھ وقت لگا۔ اس کے علاوہ علاقے میں کافی ٹریفک بھی تھی۔

مبینہ طور پر ساپلا روڈ پر ناجائز قبضے‘چوری اور بدسلوکی کے دیوبند پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کرنے کے بعدمارچ20 کے روز سلیم کے سر پر پچیس ہزار روپئے کے انعام کا اعلان کیاگیاتھا۔

پولیس کے مطابق واقعہ کی شکایت کرنے والے حسین جہاں نے کہاتھا کہ مذکورہ شخص نے ان کی زیورات چھین لینے اور ان کے بیٹے کو 16مارچ کے ان کے گھر پر زخمی کیاتھا۔

جہاں نے کہاکہ ’ قفل ٹوٹا ہوا تھا شرپسندووں نے جان بوجھ کر روم میں کچھ کیمیکل کاچھڑکاؤ کیاتھا۔تاہم آوازیں سننے کے بعد میرے بیٹا جاگ گیا اور اس کے منھ پر دوگھونسے رسید کئے گئے جس کی وجہہ سے اس کا ایک دانت بھی ٹوٹ گیا۔مگر ہم نے کسی کو بھی نہیں دیکھا‘‘۔

ساپلا روڈ چوری کے معاملے سے سلیم کو جوڑنے کے متعلق پوچھنے پر دیو بندر پولیس تحقیقات افیسر راجیوشرما نے کہاکہ ’’ہمیں ہمارے مخبرو ں کے ذریعہ سلیم کے ملوث ہونے کی جانکاری ملی۔اس معاملے کی اب بھی تحقیقات جاری ہے‘‘۔

ایس ایس پی سہارنپور ببلو کمار کا کہنا ہے سلیم اس گینگ کا حصہ ہے جو سہارنپور کے مختلف حصوں میں چوری او رڈکیتی کے واقعات میں ملوث ہے۔ انہوں نے کہاکہ’’مارچ24کے روز ایک گینگ کے چارلوگوں کو پولیس نے حراست میں لیاتھا جس کا ایک ممبر سلیم بھی تھا۔ پوچھ تاچھ کے دوران ان لوگوں نے بتایا کہ دیوبند میں ساپلا روڈ پر کی گئی چوری میں وہ سلیم کے ساتھ تھا‘‘۔

پولیس کے مطابق مارچ24کو سلیم کے ملوث ہونے کی جانکاری حاصل ہوئی مگر چار دن قبل ہی اس کے سر پر پچیس ہزار روپئے کے انعام کا اعلان کردیاگیا۔سلیم کی بیوی شمیم(35)کا کہنا ہے کہ اس کا شوہر پچھلے دس دنوں سے گھر میں نہیں تھا۔ شمیم نے کہاکہ اٹھ سال قبل جب چھوٹی بیٹی پیداہوئی تو اس وقت سلیم نے مجھ سے وعدہ کیاتھا کہ وہ کسی بھی جرم میں شامل نہیں ہوگا۔شمیم کو دوبیٹیا ں ایک کی عمر11سال اور دوسری کی عمر7سال کی ہیں۔

شمیم کا کہنا ہے کہ ’’ ہ ہرگز اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ اس کے شوہر نے کسان کو لوٹا او رگولی ماری ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے‘‘۔

اس نے کہاکہ اتوار کے روز پولیس نے سلیم کی بہن نسرین کو فون کرکے جانکاری دی تھی کہ سلیم کی ’’ حالت خراب ‘‘ ہے۔ شمیم نے بتایا کہ ’’میری ساس اور میں جب اسپتال پہنچے تو پولیس نے بتایا کہ اس کا شوہر مرگیا ہے۔ میں نے ان سے بہت گذارش کی اس کی نعش ہمیں رورکی اپنے نند کے گھر لے جانے دیں۔ مگر پولیس نے صاف طور پر انکاکردیااور میرے انگوٹھے نشان لے کر نعش کو سیدھا قبرستان لے گئی‘‘۔

پولیس نے اپنی پریس نوٹ میں سلیم کے خلاف مظفر نگر ‘ سہارنپور او ردہرادؤن کے مختلف پولیس اسٹیشنوں میں تیرہ مقدمات کی فہرست بھی شامل کی۔ سال2018میں سہارنپور کے اندر چار کیس‘ ساپلار میں چوری اور دیگر سارسوا میں کسان کے ساتھ لوٹ مار اور دوکیس انکاونٹر کے بعد ارمس ایکٹ اور اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا‘ حالانکہ دونوں اسی حادثے کا حصہ ہیں۔

مظفر نگر میں بودھانا پولیس اسٹیشن کے تحت 2017میں تین کیس‘ تینوں معاملے اقدام قتل ‘ دھوکہ دھڑی اور آرمس ایکٹ کے ہیں۔ منڈی پولیس اسٹیشن میں2014کا ایک کیس سہارنپور ڈکیتی۔مظفر نگر کے سیول لائن پولیس اسٹیشن میں2008کے دوکیس ‘ ایک فساد بھڑکانے اور اقدام قتل کا اور دوسرا چوری کا کیس۔

دہرادؤن کے بسنت وہار پولیس اسٹیشن میں2006کے دو کیس چوری اور گینکسٹر ایکٹ کے تحت۔سال2003میں مظفر نگر نائی منڈی پولیس اسٹیشن حدود میں ایک ڈکیتی کا کیس۔