سری لنکا میں امن کو بڑے خطرہ

سری لنکا میں نسلی اور فرقہ وارتشدد کے متعددواقعات میں ملک کے مسلمانوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے ‘ جس کا آبادی میں سات فیصد تناسب ہے‘ اور ان واقعات سے خانہ جنگی اور ان کے استحکام کو ملک میں خطرات درپیش ہیں۔

اگر اس تشدد کو روکنے حکومت ناکام ہوتی ہے سنہالیسا بدھسٹ جو سلسلہ وار طریقہ سے ملک کے مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں ‘ پر لگام نہیں کسے گی تو یہ تامل اقلیت پر حملوں کی شروعات کا سبب بن سکتا ہے جس کے بعد ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔

اگرچکہ کے تشدد کینڈی شہر کے اردگرد ہے جو ملک کا مرکزی صوبہ ہے‘ مگر سری لنکا میں ایمرجنسی کا نفاذ ان وارداتوں کی حساسیت بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔سوشیل میڈیا پر حکومت نے پابندی عائد کردی ہے کیونکہ اس نفرت پر مشتمل پیغامات کے ذریعہ اس کا استعمال پروپگنڈہ کے لئے کیاجارہا ہے۔

سات فیصد آبادی والے مسلمان ملک کی تیسری بڑی کمیونٹی ہیں۔سال2009کی خانہ جنگی ختم ہونے کے ساتھ جس میں مسلمانو ں کو نشانہ بنایاگیاتھا کہ بعد یہ تشدد ہندوتاملوں کے خلاف شروع ہوا۔فی الحال جو تشدد سری لنکا میں برپا ہے بتایا جارہا ہے کہ اس کی وجہہ مسلمان کے ہاتھوں ایک سڑک حادثے میں سنہالیسا بدھسٹ نوجوان کی موت ہے ۔ اس موقع پر فائدہ اٹھاتے ہوئے سنہا لیسا بدھسٹوں نے مسلمانوں کے کاروبار‘ گھروں اور مساجد کو نشانہ بنارہے ہیں۔

فبروری میں منعقدہوئے مقامی کونسل انتخابات میں مہیندا راجا پاکسا کی پارٹی کے بھاری اکثریت سے کامیابی اور روہنگی پناہ گزینوں کا مسئلے تازہ مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ صدر مائتھری پالا سریسینا اور وزیر اعظم رانیل وکرم سنگھا نے مزید دس روز تک افواج کی تعیناتی کو منظوری دی ہے۔

سنہالیسا بدھسٹ کی متعدد سونچ کو جزیرہ نما ملک کے دستورکے ذریعہ روک اور ختم کرنا ہوگا۔ اکثریتی سونچ سور ہمہ تہذیبی معاشرے میں تشدد کا سبب بنتی ہے۔ سری لنکا کے قائدین ان چیالنجس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔