ممکن ہے راہول گاندھی کی چمک کم ہے مگر مودی ان کے فیملی پر حملہ بولتے ہیں اور اس کی شروعات وہ پنڈت نہرو سے کرتے ہیں۔ راہول گاندھی سلسلہ وار ذاتی حملوں کے بجائے نریندر مودی کو چاہئے تھا کہ وہ خاموشی اختیار کرلیتے ۔
اگر آپ کو یقین نہیں ہے تو انتظار کریں۔ اور یہ تفصیلات آپ کو یقین دلائیں گی اور مودی کو تکلیف دیں گی جو سوشیل میڈیا کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ گاندھی کے ٹوئٹر پر 8.2ملین فالورس ہیں تو مودی کے 45ملین فالورس ہیں۔
مگر یونیورسٹی او رمشیگن کے ایک مطالعے سے اس بات کاانکشاف ہوتا ہے کہ جنوری اور اپریل2018کے درمیان مودی سے زائد گاندھی کی ٹوئٹس کو ری ٹوئٹ کیاگیا ہے۔
لہذا راہول نے اپنے سوشیل میڈیا پر دھوم مچانی شروع کردی ہے۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں پر رائے دہندوں سے کے چھوٹا حصہ موجود ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے ۔ مگر گجرات اسمبلی نتائج کے بعد جہاں گاندھی نے مودی کو خوفزدہ کردیاتھا‘ اور پارلیمنٹ میں غیر متوقع گلے ملنا اور آنکھ مارنے کا واقعہ اس کے بعد تین اہم ریاستو ں میں جیت حاصل کرنے کے بعد مودی اب گاندھی کو’’پپو‘‘ نہیں پکار سکتے ہیں۔
مذکورہ ’’ پپو‘‘ کاٹیاگ کو بی جے پی کی غیرمعروف ائی ٹی سل( جہاں پر صنعتی خطوط پر جوک بنائے جاتے ہیں‘‘ کی اختراع ہے مگر گاندھی نے اس پوری طرح نظر انداز کردیا۔
گاندھی نے کانگریس پارٹی میں بھی بڑی چالاکی کے ساتھ کم مخالفت کو جگہ دی ہے ‘ اور سونیاگاندھی کے قدیم وفاداروں اور اپنے نیا نوجوانوں کو ساتھ لے کر وہ چل رہے ہیں۔عام طور پر چھوٹیاں منانے کو جانے کے وقت ‘ مسائل پر بات کرنے کے دوران وہ ایک بعد دوسرا قدم اٹھارہے ہیں۔
اور دن بہ دن ان کے اطراف واکناف میں مداحوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ۔
گاندھی جن کی عمر48سال ہے کہ مودی کے بہت ہی اثر دار مخالف کے طور پر ابھر رہے ہیں۔گاندھی فی الحال رافائیل معاملے کو بدعنوانی کے طور پر مودی کے گلی ہڈی بنانے پر توجہہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔
یہاں تک کے دبئی میں اپنی حالیہ پریس کانفرنس کے دوران بھی انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم ’’ رافائیل کے لئے یرغمال‘‘ بن گئے ہیں۔ گاندھی نے کہاکہ ’’ انہوں نے سی بی ائی چیف کو دومرتبہ ہٹایا۔ ان کے پندرہ منٹ میں بھی دفتر میں رہنے سے وہ خوفزدہ ہیں‘‘۔
گاندھی کا خام مگر اثر دار نعرہ’’ چوکیدار چور ہے‘‘ اب اتنا مقبول ہوگیا ہے کہ ان کی کسی بھی عوامی جلسہ میں ان کے آتے ہی ہجوم میں سے اس کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔
جب کانگریس پارٹی 2014میں44سیٹوں پر تاریخی کمی کاشکار ہوئی تب راہول گاندھی نے اس کو قبول کرتے ہوئے ایک وضع دار سیاست داں کے طور پر خود کو پیش کرنے کاکام کیا ممکن ہے راہول گاندھی کی چمک کم ہے مگر مودی ان کے فیملی پر حملہ بولتے ہیں اور اس کی شروعات وہ پنڈت نہرو سے کرتے ہیں۔
راہول گاندھی سلسلہ وار ذاتی حملوں کے بجائے نریندر مودی کو چاہئے تھا کہ وہ خاموشی اختیار کرلیتے ۔ہندوستان کی تمام خرابیوں کے لئے مودی نہرو کو ذمہ دار ٹہراتے رہے ۔
اس کے برخلاف راہول گاندھی نے کبھی شخصی حملہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی مودی کو نشانہ بنایا اور نہ کی کبھی امیت شاہ پر شخصی حملہ کیا۔ ان کے قریبی ذرائع کہتے ہیں وہ جس قسم کی قربانی دینے کی ضرورت پڑے وہ دے کر مودی کو آفس سے ہٹانے کے لئے وہ سنجیدہ ہیں۔
انہوں نے دبئی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان بھی روداری کی بات کو مانتا ہے۔مگر بی جے پی اداروں کو تورہی ہے اور برہم ہونے کیساتھ عدم روداری کا بھی شکار ہورہی ہے۔
گاندھی نے کہاکہ ’’ یہ عارضی عمل ہے جس میں2019انتخابات کے بعد سدھار لایاجائے گا‘‘۔گاندھی کا فخرہ ’’ سوٹ بوٹ کی سرکاری‘‘ مسٹر 56اور ان کے دوست اے اے مودی کے لئے تکلیف دہ ہیں۔
راہول گاندھی کی منشاء وہاں پر دیکھائی دی جب کرناٹک میں کم سیٹوں پر جیت کے باوجود اپنی ساتھی سیاسی پارٹی کو چیف منسٹر کی غیر مشروط پیشکش کردی تاکہ مودی کو اقتدار سے دور رکھا جاسکے۔
گاندھی نے بڑی چالاکی کے ساتھ خود کو شیو بھکت کے طور پر پیش کردیا۔ یہ حربہ کانگریس کو مخالف ہندو کے طور پر پیش کرنے کی بی جے پی کی کوششوں پر بڑا کارضرب ثابت ہوا ۔
اس وقت بی جے پی کی الجھن میں اضافہ دیکھا گیا جب راہول گاندھی اپنے ’’ گوتر‘‘ کے متعلق برسرعام بات کرتے ہیں