رام نومی تشدد۔بیٹے کی موت پر امام نے کہاکہ اگر کوئی جوابی کاروائی کی بات کریگا توگاؤں چھوڑ کا چلا جاؤں گا

اسانسول میں کشیدگی۔صبت اللہ رشید جو اسی سال دسویں جماعت کا امتحان دینے کے بعد نتائج کا منتظر تھے‘ منگل کے روز دوپہر میں اسانسول کے ریل پار علاقے میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد سے لاپتہ بتائے جارہے تھے
مغربی بنگال۔ریاست بھر میں رام نومی جلوس کے دوران کئی فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات پیش ائے ہیں اور اتوار کے روز مذکورہ واقعات میں ہلاک ہونے والے ایک نوجوان کی نعش بھی ملی جس کے بعد ریاست میں پیش آرہے فرقہ وارانہ فسادات میں مرنے والوں کی تعداد چار تک پہنچ گئی ہے۔

متوفی ایک سولہ نوجوان تھا جو اسانسول کی مسجد کے امام مولانا امداد الرشیدی کا فرزند تھا ۔ جمعرات کے روز مولانا نے اپنے بیٹے کے جلوس جنازہ میں شرکت کے بعد تجہیز وتکفین کی ذمہ داری بھی پوری کی ‘ وہیں انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ امن وسکون برقرار رکھیں۔ جلوس جنازہ میں شامل لوگوں سے انہوں نے کہاکہ اگر وہ ان کی بیٹے کی موت پر جوابی کاروائی یاکسی بدلے کے بارے میں سونچیں گے تومیں گاؤں اور مسجد چھوڑ کر چلاجاؤں گا۔

اسانسول میں کشیدگی۔صبت اللہ رشید جو اسی سال دسویں جماعت کا امتحان دینے کے بعد نتائج کا منتظر تھے‘ منگل کے روز دوپہر میں اسانسول کے ریل پار علاقے میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد سے لاپتہ بتائے جارہے تھے۔ذرائع کے مطابق ہجوم نے اس کو اٹھالیاتھا۔ اس کی نعش چہارشنبہ کی رات کو ملی وہیں جمعرات کے روز شناخت کی گئی۔ شبہ ہے کہ متوفی نوجوان کو بے رحمی کے ساتھ زدکوب کرکے ماردیاگیا ہے۔

مولانا رشیدی (48)نے انڈین ایکسپرس سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ جب میں باہر آیا تو بڑا شوروغل تھا۔ شر پسندوں کے گروپ نے اس کو اٹھالیاتھا۔ میرے بڑے بیٹے نے پولیس کو آگاہ کیاتھا‘ مگر و ہ پولیس اسٹیشن پر انتظار کرتا رہ گیا۔ ہمیں بعد میں اس بات کی اطلاع دی گئی کہ پولیس نے نعش برآمد کرلی ہے۔

صبح اس کی شناخت ہوئی‘‘۔صبت اللہ کو دفن کرنے کے بعد عید گاہ میدان میں ہزاروں لو گ جمع ہوگئے‘ مولانا رشیدی نے امن کی اپیل کی۔ ندی پار چت لاد نگر کی نوری مسجد کے امام رشیدی نے کہاکہ ’’میں امن چاہتا ہوں۔

میرا بیٹا مجھ سے دو چلاگیا ہے۔ میں کسی اور کے اس طرح کا واقعہ ائے ایسا نہیں چاہوں گا۔میں نہیں چاہتا کہ کچھ اور گھر جلیں۔میں نے ہجوم سے کہہ دیاتھا کہ اگر کوئی جوابی حملہ کیاگیاتو میں گاؤں چھوڑ کر چلاؤں گا۔

میں نے ان سے کہا اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہوئے انگلی نہیں اٹھاؤگے‘‘۔انہوں نے کہاکہ ’’میں پچھلے تیس سالوں سے امام کے خدمات انجام دے رہاہوں۔

یہ ضروری ہے کہ میں عوام کو اچھا پیغام دوں۔ ایک پیغام جو امن کا ہے۔میرا اپنی ذاتی نقصان ہوا ہے۔ اسانسول کے لوگ ایسے نہیں ہے۔ یہ ایک سازش ہے‘‘۔میئر اسانسول جیتندر تیواری نے کہاکہ ’’ امام نے برہم نوجوانوں کو ٹھنڈا کرکے انتظامیہ کا تعاون کیا ہے۔

ہمیں ان پر ناز ہے۔ اتنے بڑے نقصان کے بعد بھی امام صاحب نے لوگ سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے‘‘۔اسانسول کے وارڈ 25 جہاں پر متوفی کے گھر والے مقیم ہیں کی نمائندگی کرنے والے کونسلر محمد نسیم انصاری نے کہاکہ’’ اپنا بیٹا کھونے والے والد سے ہمیں اس قسم کی توقع نہیں تھی۔

یہ نہ صرف بنگال بلکہ سارے ملک کے لئے ایک مثال ہے۔ ان کی تقریر کے بعد لوگ زاروقطار رونے لگے۔ میں وہاں پر موجود تھا۔ میں حیران رہ گیا۔ نوجوان کے نعش ملنے کے بعد لوگوں میں کافی غم وغصہ تھا مگر امن کی اپیل کام کرگئی۔

وہ علاقے میں کافی مقبول ہیں۔ اگر وہ امن کی اپیل نہیں کرتے تو اسانسول میں آگ لگ جاتی‘‘