دہشت گردی کے متعلق امریکہ کا دوہرا رویہ ۔ 

امریکہ کے مشہور شہر مین ہٹن میں31اکتوبر کی رات کو ایک ٹراک ڈرائیور نے بے تحاشہ انداز میں سیکل ٹریک پر ٹرک دوڑا کے اٹھ لوگوں کو ہلاک کردیاجس کے بعد سارے امریکہ لرزاٹھا کیونکہ اس جنونی حرکت کو انجام دینے والے کانام سیف اللہ تھا اور اس کے چہرے پر دراڑھی تھی اور اس نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایاتھا۔اس حملے کے بعد امریکہ اس قدر لرزم براندام تھا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے مختلف محکموں کو مہاجروں او رپناہ گزینوں پر قدغن لگانے کا حکم دے دیا اور اس بات کا سختی ساتھ اعلان کردیا کہ وہ اپنے ملک کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بننے نہیں دیں گے۔

لیکن پانچ نومبر کو جب ایک جنونی عیسائی نے ٹیکساس کے ایک کلیسا میں گھس پر 26لوگوں کو گولی ماردی تو امریکی صدر کو نہ تودہشت گردی کا خیال آیا اور نہ ہی انہو ں نے سونچا کے عیسائی بھی دہشت گرد ہوسکتے ہیں۔ٹرمپ نے کسی محکمے کو اس بات کاحکم نہیں دیا کہ وہ ملک میں داخل ہونے والے عیسائیوں پر نظر رکھے۔کیونکہ امریکیوں کے ہاتھوں لکھی دہشت گردی کی کتاب میں دہشت گردی صرف اس کو کہتے ہیں جس میں کوئی مسلمانوں ملوث ہو۔

حیرت ٹرمپ یا امریکہ پر نہیں بلکہ اس مغربی میڈیا پر ہورہی ہے جس نے مین ہٹن کے واقعہ پر خصوصی نشریات کا اہتمام کیامگر وہ چرچ پر حملے کے بعد ٹرمپ کے جاپان دورے ‘ نارتھ کوریا کو ٹرمپ کی دھمکیوں کے متعلق خبریں فراہم کرنے اور بحث کرانے میں مصروف دیکھائی دینے لگا۔حالانکہ مغربی میڈیااس بات سے اچھی طر ح واقف ہے کہ حملہ آور نے بیپٹسٹ چرچ کو نشانہ بنایا ہے اور یہ حملہ عیسائی کی مسلکی جنگ کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے۔

لیکن کسی نے عیسائیوں کی فرقہ بندی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ سونچئے اگر یہ کوئی مسلمانوں کی مسجد میں ہوا ہوتا تو کیامسجد سے پہلے مسلک کا نام نہیں لکھا ہوتا؟ کیاشیعہ مسجد یا پھر سنی مسجد کانام واقعہ سے جوڑ نہیں دیاجاتا؟لیکن کسی بھی مغربی میڈیا نے عیسائیوں کی فرقہ بندی کا کوئی ذکر کرنایہاں پر مناسب نہیں سمجھاجبکہ مغرب کا میڈیا زیادہ سکیولر او راعتدال پسند سمجھا جاتا ہے باوجود اسکے مغربی میڈیا نے اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کیاتو کس طرح ہندوستانی میڈیاسے توقع کی جاسکتی ہے۔انڈیا کے بیشتر نیوز چیانلوں کو خبروں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

انڈیا کے میڈیاکو صرف وہی خبر نیوز لگتی ہے جس سے کسی کی دلآزاری ہو یاکسی خاص فرقہ کے خلاف نفرت پھیلانے کاانہیں موقع مل سکے۔ ویسے بھی اب ہمار ے نیوز چیانل خبروں کی نشریات کے بجائے چیخ پکار کا اڈہ بن گئے ہیں۔نیوز چیانل کی میٹنگ میں نیوز فال پر گفتگو ہوا کرتی تھی مگر اب توجہہ مرکوز ہے کہ کس کو بدنام کرنے کی سازش تیار کی جائے ‘ لہذا سب سے آسانی کے ساتھ نشانہ بنائے جانے والی قوم اقلیتیں ہیں تو صبح وشام سارا دن اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔

یہی وجہہ ہے کہ ٹیکساس کے کلیسا میں 26لوگوں کو گولی مارکر ہلاک کردینے کا واقعہ دہشت گردی محسوس نہیں ہوا ۔ اگر خدانخواستہ یہی کام کسی مسلمانو ں نے کیا ہوتا تو اس طرح کی بحث ٹیلی ویثرن پر چھڑ جاتی ہے مانو گن کلچر اسلام کی اختراع ہے اور جب تک کوئی مسلمان اس قتل عام کا ذمہ دار نہیں ٹھرایاجاتا تب تک اس قسم کے واقعات کو وہ دہشت گردی نہیں کہہ سکتے۔

دراصل گن کلچر کی شروعات 2016میں جس کی وجہہ سے گیارہ ہزار امریکی مارگئے تھے۔ دنیا کے ہر ذمہ داری سے یہ سوال پوچھناضروری ہے کہ آخر کار دہشت گردی کا معنی کیاہے ‘ اگر کوئی مسلمان کسی دہشت گرد حملے میں ملوث پایا جاتا ہے اور اس کی حرکت سے اٹھ یاد س لوگ مارے جاتے ہیں تو وہ دہشت گردی ہے جس کی راست نشریات عمل میںآتی ہے یا پھر وہ جب داعش کے حملے میں ایک سو سے زائد مسلمان مارے جاتے ہیں مگر اس کی راست نشریات کا اہتمام نہیں کیاجاتا ۔ دہشت گردی کے متعلق مغربی میڈیا اور امریکہ کا دوغلا رویہ دہشت گردی کے دومعیار طئے کرچکا ہے اس بات کی وضاحت بھی دنیابھر کے صحافیوں کو ہی دینی ہے۔