نئی دہلی:جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم نجیب احمد کا پتہ لگانے میں قاصر دہلی پولس پرسدہلی ہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ55روز تک کوئی کیسا لاپتہ رہ سکتا ہے اور پوچھا کہ کوئی شخص ’’ اچانک غائب ‘‘ کیسے ہوسکتا ہے۔
اپنا گمشدہ بچے کی تلاش میں دربدر بھٹکنے والی ماں کے حوصلوں کو کمزور ہونے سے بچاتے ہوئے ‘ عدالت نے کہاکہ ایسے صورت حال میں جہاں ایک لاپتہ فرد کی 50دنوں میں پتہ نہیں لگایاگیااس سے وہیں عوامی میں اس سے عدم تحفظ بڑھ جائے گا۔
جسٹس جی ایس سیستانی اور ونود گوئل بنچ نے کہاکہ ’’ پچاس دن سے زیادہ کا وقت ہوگیا‘ اب تک تم لوگ( پولیس) اس بات کاپتہ لگانے سے قاصر ہیں کہ وہ کہاں ہے۔
کس طرح کوئی اچانک غائب ہوجاتا ہے اور پولیس کے پاس اس کا کوئی سراغ نہیں ہے؟اس کے متعلق ہم اگر کچھ برا بھی سونچتے ہیں ‘ کچھ تو سامنے آناچاہئے تھا۔ہمیں اس بات کا شدید دکھ ہے کہ لاپتہ فرد کا اب تک پتہ نہیں چل سکا‘‘۔
بتایا جاتا ہے کہ اکھیل بھارتیہ ودیارتی پریشد( اے بی وی پی) کارکنوں کے ساتھ جھڑپ کے بعد 15اکٹوبر کے روز جی این یو کے ماہی منڈل ہاسٹل سے نجیب لاپتہ ہے۔اے بی وی پی نجیب کی گمشدگی میں ملوث ہونے سے انکار کررہی ہے۔
عدالت کامشاہد ہ اس وقت سامنے آیا جب جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور پولیس نے اس بات کی اطلاع دی کہ وہ نجیب کا پتہ لگانے میں اب تک ناکام ہے اور ہم اس کا پتہ لگانے کی پوری کوشش کررہے ہیں ۔
جس پر عدالت نے کہاکہ ’’ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں ہے کہ لڑکے کی بازیابی ہواور وہ اپنے گھر واپس چلے جائے ۔
ہمارا مقصد ایک ماں کو اس کابچہ ملنا چاہئے‘‘۔یونیورسٹی او رپولیس نجیب کی 45سالہ ماں فاطمہ نفیس سے درخواست پر جواب د ے رہی تھے جہاں پر جمعہ کے روز وہ خود بھی موجود تھیں۔
فاطمہ نفیس نے عدالت سے دراخواست کی کہ وہ اپنے 27سالہ بیٹا جو جے این یو سے بائیو ٹکنالوجی میں ایم ایس سی کررہا تھا کی تلاش کے لئے یونیورسٹی کو ہدایت دیں۔
عدالت میں سنوائی کے دوران پولیس کے وکیل کی حیثیت سے سینئر اسٹاڈنگ کونسل راہول مہرہ پیش ائے ہوئے تھے ‘ جنھو ں نے بنچ کو بتایا کہ کرائم برنچ نے تمام زاویوں نجیب کی تلاش کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے یہاں تک اس کے متعلق اشتہا ر بھی دیاگیا ہے۔’’ ہمار ی سطح پر جو ممکن ہوسکتا ہے ہم کررہے ہیں ‘‘۔