تمام محاذوں پر بی جے پی سے ناراض عوام کو حب والوطنی کی بنیاد پر اپنی طرف بی جے پی کیا راغب کرسکے گی؟۔

پلواماں کا بدلہ الیکشن میں کو کیارنگ دے گا؟۔
کیا پلواماں دہشت گرد حملے اور س کے بعد پاکستان ک سرحد میں گھس پر دہشت گرد ٹھکانوں کو انڈین ائیر فورس کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی سے کیاملک کی سیاست میں تبدیلی ائے گی؟۔

فبروری14سے لے کر اب تک جس طرح کے ملک میں سیاسی حالات بنے ہیں‘ اس سے صاف ہوگیا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس واقعہ کی ملک کی سیاست پر واضح چھاپ رہے گی او رعام انتخابات کے دوران یہ اہم موضوع رہے گا اور انے والے دنوں میں اس کا اثر بھی دیکھائی دے گا۔

اس پورے پروگرام سے ’برانڈ مودی‘ ایک مرتبہ پھر مضبوط ہوا ہے۔ حملے کے بعد سے مودی کی مقبولیت میں اضافہ دیکھی جارہی تھی‘ اس امید کے ساتھ وہ سخت کاروائی کریں گے۔

او راب جب 26فبروری کو پاکستان کے اندر گھس پر دہشت گرد ٹھکانوں پر حملے کیاگیاتو اس سے وہ لوگوں کی امیدوں پر کھرے اترتے دیکھے۔وزیراعظم کی اس بڑھتی مقبولیت ایک مہم کی شروعات بھی عمل میں آچکی ہے۔

یہاں اس پوری معاملے پر سب سے زیادہ الجھن شکار اپوزیشن جماعتیں ہیں ۔

وہ اس حالات میں ہیں وہ نہ تو اس موضوع پر الیکشن لڑسکتے ہیں او رنہ ہی اس معاملے پر بچ سکتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے موضوع غائب ہوچکے ہیں۔

جانکاروں کے مطابق جو رحجان آرہے ہیں ‘ اس حساب سے پچھلے پندرہ دنوں میں باقی سارے موضوعات اب حاشیہ پر جاتے دیکھائی دے رہے ہیں۔

الیکشن ماہریشونت دیش مکھ کے مطابق جنگ جیسے حالات جب بھی ملک کے سامنے آتے ہیں تو الگ سے ایک جذبات سامنے آجاتے ہیں ‘ جس میں لوگ فطری طور سے مضبوط قیادت اور مضبوط حکومت کی جانب سے جانا پسند کرتے ہیں۔

ایسے میں یہ ماحول بی جے پی او روزیراعظم مودی کی حمایت جاسکتا ہے۔

ایسے وقت میں دوسرے موضوعات کا نظر انداز کیاجانا فطری بات مانی جائے گی۔ اس واقعہ سے قبل بی جے پی کو2014میں282سیٹوں پر جیت کے مقابلے مجوزہ لوک سبھا الیکشن میں بھاری نقصان کی توقع جتائی جارہی تھی ۔

بی جے پی کو اپنی ہی 200سیٹوں پر کمی ہوتی دیکھائی دے رہی تھی ۔

مگر اس تبدیل شدہ ماحول میں لگتا ہے کہ بی جے پی وہ لہر پیدا کرسکتی ہے ‘ جس سے 2014سے بڑی جیت حاصل ہوسکتی ہے۔ پچھلے دنوں وزیر ریلوے نے دعوی کیاتھا کہ اس مرتبہ 300سے زائد سیٹوں پر جیت حاصل ہوگی۔