اگر ہندوستانی تشدد کا راستہ اختیار کرتے تو فرنگی کبھی بھی ہندوستان کو آزاد ہونے نہیں دیتے۔ بقلم مشرف عالم نوقی
مشہور ہدایت کار چرڈ ایلن برو کی فلم ”گاندھی“ کا ایک منظرہے‘مہاتما گاندھی مقدمہ کے لئے کورٹ روم میں داخ ہوتے ہیں تو ان کے احترام میں جج اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑاہوتا ہے اور جج کے ساتھ ہال میں کرسیوں پر بیٹھے تمام لوگ اپنی جگہ اٹھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
یہ فرنگی تھے جو مہاتماگاندھی کی قدر کرتے تھے۔ آج امیت شاپ مہاتماگاندھی کو ’چتر بنیا“ کہتے ہیں او رپوراملک خامو ش رہتا ہے۔ گاندھی جی کے مجسمہ پرعلامتی گولیاں برسائی جاتی ہیں ملک خاموش رہتا ہے۔ ان پانچ برسوں میں دراصل گاندھی جی کو گالیاں نہیں دی گئیں بلکہ ان گالیوں ک بہانے ہندوستان اور ملنے والے آزادی کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی۔
گاندھی جی راشٹرا پتا یں اور راشٹر پتا اس لیے ہیں کے غلامی سے نجات دلانے کے لئے انہوں نے تمام ہندوستان کو متحدکرلیا۔اس وقت کون تھا جو گاندھی جی کاعاشق نہیں تھا۔ کیا ہندو کیا مسلمان‘ کیا سکھ کیاعیسائی۔ یہ گاندھی جی کی محنت او رقابلیت تھی کہ انگریز بھی ان سے عقیدت رکھتے تھے۔
اگر ائین راشٹرپتا سے عقیدت واحترام کے جذبے کو لے کر سخت ہوجائے تو کیاسادھوی ھرگیہ جیسوں کی مجال ہے کہ گاندھی جی کی عظمت وعزت کو تارتار کرسکیں۔
پانچ برس میں گاندھی جی کے نام پر حکمراں طبقہ خاموش رہا مگر اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے مخصوص فکر والے مسلسل گاندھی جی کو نشانہ بناتے رہے۔ گستاخیاں کرتے رہے اور ملک خاموش رہا۔
گاندھی جی جوپاکستان کا راشٹرپتا کہاگیا۔کہنے والا یہ بھول گیا کہ باپو ن صرف ہندوستان وپاکستان کے بلکہ ہر ملک کے باپو ہیں۔ اگرعالمی مملک آج بھی گاندھی جی کے فلسفے کو اختیار کریں گے تو جنگ عظیم کے خطرات سے بچے رہیں گے۔عالمی بستیاں چین وامن کا گہوار بن جائیں گے۔
گاندھی جی نے تشدد اور عدم تشدد کے فرق کو سمجھاتھا۔ یہ سب یہ ضروری پہلو ہے‘ جس پر پورے ہندوستان کو غور کرنے کی ضرور ت ہے کہ آخر مخصوص نظریت سے وابستہ افراد گاندھی جی کے فلسفہ کو قبول کرنے سے انکار کیوں کرتے ہیں۔ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی۔
بھگت سنگھ نے معافی نہیں مانگی۔ ایک وقت تھا جب ایک مخصوص نظریہ گاندھی جی کے ساتھ نہیں‘ فرنگیوں کی حمایت میں سامنے تھا۔ یہ نظریہ آج بھی تشدد کو ہوا دیتا ہے او رتشدد کے راستے ہندو راشٹرایہ کے قیام کا تصور کرتا ہے۔
گاندھی جی ساوتھ افریقہ سے ہندوستان ائے تو ہندوستانی رنگ میں رنگ گئے۔اس وقت کا ہندوستان انگریزوں سے آزادی کے لئے جنگ جنگ کھیل رہاتھا۔ ہندوستانی مارے جارہے رہے تھے۔ پٹ رہے تھے۔ رسوا ہورہے تھے۔ غدار کہے جارہے تھے۔ سزائیں مل رہی تھیں
۔ گاندھی جی نے غلام ہندوستان کو عدم تشد د کا راستہ دکھایا تو انگگریز حیران رہ گئے۔ انگریز ڈسپلن کے معاملے میں سخت تھے۔ کچھ معاملوں میں بہتر سوچ رکھتے تھے۔ کوئی ان سے ٹکرائے تو اس کا جواب دینا جانتے تھے‘ مگر گاندھی جی کی آمد کے بعد معاملہ ہی بدل گیا۔ آپ مارے ہم سہنتے کو تیار۔
آپ ایک گال پر ماریں‘ دوسر ا گال حاضر۔ آپ لاٹھیاں چلائیں‘ ہندوستانی مدافعت نہیں کریں گے۔
عدم تشدد کا فلسفہ چل گیا اور انگریزوں کو پانی پانی گرگیا۔ گاندھی جی موت کے بعد بھی زندہ ہے جبکہ گوڈسے اسی روز مر گیاجس دن اس کے گاندھی جی کی جان لی تھی۔
گاندھی جی کے قاتل کا مندر بناکر سرخیو ں میں آنے کی کوشش کرنے والے یہ فراموش کردئے کہ گاندھی جی کروڑ ہاہندوستانیوں کے دل میں بستے ہیں