بی جے پی نے اتحاد توڑنے کے آثار تک ظاہر نہیں ہونے دئے۔پی ڈی پی رکن پارلیمنٹ راجیہ سبھا نظیر احمد لاوے

جموں او رکشمیر میں حکومت کی تشکیل کے لئے تین سال قبل پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی اور بی جے پی کے درمیان میں غیر یقینی اتحادپیش آیا تھاجوپچھلے ہفتے ختم ہوگیا۔اتحاد کے ختم ہونے کے بعد حکومت گری اور اس کے بعد وادی میں صدر راج کا نفاذ عمل میں لایاگیا۔

راجیہ سبھا میں پی ڈی پی کی نمائندگی کرنے والے پارلیمنٹرین نظر احمد لاوے نے روہت ای ڈیوڈ سے بات کرتے ہوئے بی جے پی او رپی ڈی پی میں اتحاد ٹوٹنے‘ ان کے پارٹی کے ایجنڈے اور کشمیری نوجوانوں کو شدت پسندنے کے عمل پر خوف کا اظہار کیا۔میں نہیں جانتا انہوں نے حمایت کیوں واپس لے لی۔

بی جے پی نے کبھی بھی اس بات کا اشارہ نہیں دیا کہ وہ اتحاد کو توڑنے جارہی ہے۔ مفتی محمد سعید جی جموں او رکشمیر کے لوگوں کو متحد کرنے میں سنجیدہ تھا۔سال2014میں عوامی رائے منقسم تھی۔

ہمیں کشمیر سے صاف بڑھت ملی اور بی جے پی نے وہی جموں سے حاصل کی اورلداخ میں یہ دونوں پارٹیاں اور نیشنل کانفرنس بھی وہاں پر موجود تھی۔ اس وقت کسی نے بھی نہیں سونچا تھا کہ یہ پی ڈی پی اور بی جے پی ایک ساتھ ائیں گے۔

مفتی جی نے محسوس کا یہ مذکورہ پارٹیاں حکومت کریں گی۔ بالآخر وہاں اتحاد ہوا تھا اور تین سال بھی گذ ر گئے۔ وہاں پر پی ڈی پی او ربی جے پی کے درمیان میں نہ تو کوئی اشارہ تھا او رنہ ہی کو میٹنگ ہوگئی پھر انہوں نے اتحاد ختم کردیا۔ میں نے کسی بھی وقت یہ نہیں دیکھا کہ بی جے پی بازو ہٹ جائے گی۔

جموں او رکشمیر کی عوام کے خلاف اس اتحاد کو ختم کیا گیا ہے

عارضی جنگ بندی کو ختم کرنے کو لے کر پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان میں کوئی اختلاف رائے تو نہیں تھا؟
پی ڈی پی ہمیشہ ہی جنگ بندی کی حمایت میں رہی ہے۔

اور یہ بات دونوں پارٹیوں نے اتحاد کے ایجنڈے میں بھی شامل کی تھی۔ جنگ بندی ہماری الیکشن منشور کے مطابق ہوا تھا اور اب بھی ہم اس ایجنڈے پر قائم ہیں۔محبوبہ جی ہمیشہ یہ کہتی ہے کہ ’’ صرف بات چیت ہی مسائل کا حل ہیں‘‘

۔ہم شدت پسند نہیں ہے۔ ہم بات چیت کے عمل کے حامی ہیں۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے نظریات منفرد ہیں۔ ہم نے ریاست کو برباد نہیں کیاہے۔

پچھلے تین سالوں میں ہم نے بہت سارے ترقیاتی کام انجام دئے ہیں۔سکیورٹی کے وہاں پر پیش نظر ہے مگر ہم نے آرام کے ساتھ کام کیا ہے۔میں نہیں جانتا ہے کہ اس میں بی جے پی کو کائی سیاسی کھیل ہوگا۔

وہ چیف منسٹر کے سامنے اپنے کوئی مسائل پیش نہیں کئے۔ ہوسکتا ہے بی جے پی کی کچھ او رمجبوریاں ہونگی‘ یا پھر وہ 2019کے الیکشن کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ یہ کوئی سیاسی حربہ ہوسکتا ہے۔وہ چیف منسٹر نہیں تھی جنھوں نے کہاتھا( اپریشن پر روک کے لئے) علیحدگی پسندوں سے ہم بات کریں گے۔

انہو ں نے وزیر اعظم اور یونین منسٹری سے کی رضا مندی کے بعد ہی علیحدگی پسندوں سے بات کی تھی۔ہم ہمارے ایجنڈے سے ہم آہنگ ہیں۔ جو پی ڈی پی نے عوام سے وعدہ کیاتھا ‘ ہم کو اس کو آگے لے جانے کاکام کیاہے۔

بی جے پی یہ کہا ہے کہ وادی میں شدت پسندی بڑھی ہے۔ گذشتہ کچھ سالوں میں شدت پسندی کی نوعیت کس طرح بدلی ہے؟
میں اس کو شدت پسندی کے طور پر نہیں دیکھتا۔ لوگ احتجاج کے ذریعہ ان کے ہاتھوں کا ہتھیار بن رہے ہیں ۔ جب لوگ احتجاج کرتے ہیں تو پھر حکومت کو ان کی دشواریاں ختم کرنا پڑتا ہے۔شدت پسندی کا مطالب دعوۃ اسلامی ہے جو کشمیر میں نہیں ہے۔ لوگوں کا سڑکوں پر آنے شدت پسندی سے کچھ مختلف ہے۔

ہم پتھر بازوں کے طور پر لوگوں کو دیکھتے ہیں جو حقیقی مسائل کاشکار ہیں۔عسکریت کی نوعیت کچھ اس طرح بڑے پیمانے پر تبدیل ہوئی ہے کہ مقامی نوجوان میں اس شامل ہورہے ہیں۔ میں دیکھتاہوں کہ عسکریت میں اضافہ صرف اتحادی ساتھیوں کے کچھ بے تکے بیانات ہیں۔

لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی کہ پی ڈی پی ۔ بی جے پی ایک ساتھ ائیں گے مگر مودی جی نے ریاست کی عوام کے بڑے فائدے کے لئے یہ کام کیا ۔
اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو کیا آپ نے شدت پسندی کو جانچنے کا کوئی دوسرا رخ اختیار کیاہے؟

میں کشمیر میں کسی بھی قسم کے شدت پسندی کا انکار کرتاہوں۔ ذاتی طور پر میری رائے میں یہ عوام کی جانب سے اپنے مسائل کی پیشکش ہے۔

اگلے الیکشن میں کیا آپ کانگریس سے اتحاد کی بات کریں گے؟
نہیں آج کی تاریخ تک پارٹی نے اس مسلئے پر بات نہیں کی ہے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ گورنر راج کا نفاذ صحیح چیز ہے؟
یہ مجبوری میں کیاگیا ہے۔گورنر رول کا استعمال کم سے کم کرنا چاہئے۔گورنر راج کے نفاذ سے بی جے پی اگر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ریاست پر حکمران چاہئے تو یہ ممکن ہیں ہے۔ جموں اور کشمیر کو کوئی طاقت قابو میں نہیں کرسکتی۔

کیا پی ڈی پی اگلے الیکشن کے تیار ہے؟
فی الحال اس موضوع پر ہم نے بحث نہیں کی ہے۔ مگر ہم سیاسی پارٹی ہے ‘ ہم ہر وقت الیکشن کے لئے تیار ہیں۔