بنگال کے اسکول میں لڑکیوں کی شادی کے متعلق والدین سے وعدہ لیاگیا 

رضاکارانہ طور پر ایک صفحہ حلفیہ بیان بنگال میں پچھلے ماہ لیاگیا ‘ جس کے متعلق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مرشد آباد کے لالگولہ کے لشکر پور ہائی اسکول میں 18سو والدین نے نے اس پر اپنی دستخط ثبت کی ہے۔

کلکتہ۔’جب تک وہ اٹھارہ سال کی نہیں ہوجاتی تب تک میں اپنی بیٹی کی شادی نہیں کروں گا۔ اس کا اسکول جانا کبھی بند نہیں ہوگا۔

میں اس کو اٹھارہ سال کی ہونے تک تعلیم دلاؤں گا اور اور اس کے بعد میں اس کی شادی کی تیاریاں کروں گا‘۔بنگلہ دیش سرحد کے قریب مغربی بنگال کے ایک گرلز اسکول میں والدین سے لیاگیاحلف نامہ کی یہ تحریری ہے ۔

ٹیچروں کا کہنا ہے اس کا مقصد لڑکیوں کو خودمختار بنانا ‘ سلسلہ تعلیم منقطع ہونے سے ورکنا اور کم عمرمیں شادی کے واقعات کو ختم کرنا ہے۔

رضاکارانہ طور پر ایک صفحہ حلفیہ بیان بنگال میں پچھلے ماہ لیاگیا ‘ جس کے متعلق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مرشد آباد کے لالگولہ کے لشکر پور ہائی اسکول میں 18سو والدین نے نے اس پر اپنی دستخط ثبت کی ہے۔

اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی مجموعی تعداد 3205ہے جس میں نصف سے زائد یعنی 1957لڑکیاں زیر تعلیم ہیں اور علاقے کے 22سے گاؤں سے یہاں آکر یہاں پر تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

یہ پہل اس قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کی جانب سے قومی فیملی ہلتھ سروے چار کی بنیاد پر جاری کردہ رپورٹ کے بعد کی گئی ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ مغربی بنگال نے ریاستوں میں سرفہرست ہے جہاں پر کم عمر میں شادیوں کا تناسب25.6فیصد ہے اور لڑکیوں کی عمر15سے انیس سال کی عمر ہوتی ہے او رمرشد آباد تمام اضلاع میں سرفہرست ہے جس کا تناسب39.9فیصد کا ہے۔

مذکورہ سروے جو2016-16میں کیاگیاتھا اس کے مطابق قومی تناسب 11.9فیصد کا ہے۔لشکر پور اسکول کے ہیڈ ماسٹر جہانگیرعالم نے کہاکہ ’’ شعور بیداری کی مہم کے طور پر اس طرح کا حلفیہ بیان لینے کا کام شروع کیاگیاہے‘ بعض واقعات میں اسکولوں کی جانب سے مداخلت کی جارہی ہے ۔

ہم کسی پر دستخط کے لئے دباؤ نہیں ڈال رہے ہیں ‘ اور جو والدین ایسے کرنے سے انکار کررہے ہیں ان کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں کی جارہی ہے ۔ ہم انہیں سمجھا رہے ہیں۔ تاہم ہمیں اب تک کوئی ایسے والدین نہیں ملے جودستخط کرنے سے انکار کریں‘‘۔

عہدیداروں او رٹیچرس نے کہاکہ اسکول انتظامیہ نے ایک کنیا شری گروپ بھی قائم کیاہے ‘ جو حکومت کے اسکولی لڑکیوں کے پراجکٹ کے خطوط پر ہے ۔ مذکورہ گروپ دیہاتوں میں چوکنا رہے گا اور کسی بھی کم عمر بچی کی شادی اگر والدین کراناچاہتے ہیں تو اس کو رپورٹ کرے گا۔

بعدازاں اسکول کے ٹیچرس والدین کو جاکر سمجھائیں گے اور اگر ضرورت پڑتی ہے تو معاملہ کو پولیس اور ضلع انتظامیہ تک لے جانے کاکام کیاجائے گا۔لال گولا کے بلاک ڈیولپمنٹ افیسر سامسو جامن نے کہاکہ ’’ کم عمر کی لڑکیوں کی شادیوں کو روکنے کے لئے یہ ایک منفرد پہل ہے ۔

سال2013سے کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لئے والدین او رٹیچرس کی میٹنگ منعقدکررہے ہیں او راس ضمن میں مہم بھی چلارہے ہیں‘‘۔ ہیڈ ماسٹر عالم نے کہاکہ ’’ اس طرح کی شادیاں یہاں پر عام ہیں۔

سالوں جب مرد گھروں کے باہر کام کے سلسلے میں چلے جاتے ہیں تو گھر میں لڑکیو ں کی دیکھ بھال مائیں کرتی ہیں۔ انہیں جلد سے جلد اپنی بیٹی کی شادی کردینے کا فکر لاحق رہتی ہے‘‘