بنگال میں ایک امام نے اپنے نوجوان لڑکے کو کھو کر بھی امن کو قائم رکھنے کی اپیل کی

کوکاتہ : ایک ایسے وقت میں جب بہار اور مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک رہی ہے اور سیا سی مقاصد کے لئے انسانوں کو انسان کا خون کرنے پر اکسایا جا رہا ہے ۔مغربی بنگال کے آسنسول میں فسادیوں کے ہاتھوں اپنے لخت جگر کی ہلاکت کے باوجودایک مسجد کے امام نے امن کی اپیل کر کے زبر دست مثال قائم کی۔ان کے اس اپیل کی خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔اور اس کو انسانیت کا اصل نمونہ قرار دیا جا رہا ہے ۔

اطلاع کے مطابق آسنسول میں نورانی مسجد کے امام مولانا امداد اللہ کے نوعمر لڑکے صبغۃ اللہ راشدی کو فسادیوں کی بھیڑ نے اغوا کرکے پیٹ پیٹ کے مار ڈالا۔صبغۃ اللہ نے چند دن قبل ہی دسویں جماعت کا امتحان دیا تھا۔وہ منگل کے دن لا پتہ ہو گیا تھا۔بعد میں معلوم ہوا کہ فسادیوں کی بھیڑ نے اسے اغوا کیا تھا۔

بدھ کی رات اس کی لاش بر آمد ہوئی ۔جمعرات کو لاش کی شناخت ہوئی کہ یہ مسجد کے امام مولانا امداد اللہ کے بیٹے کی لاش ہے۔

اس کے بعد سے ہی آسنسول کے مسلم محلوں میں زبردست کشیدگی دیکھی گئی۔مسلمان اس قتل کا انتقام لینے پر آمادہ تھے۔یہ ناراضگی بڑے فساد میں تبدیل ہوسکتی تھی۔لیکن موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے امام صاحب نے بروقت مداخلت کی اور اگے بڑھ کر عوام سے امن کی اپیل کی ۔

عید گاہ میں جب صبغۃ اللہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی تو اس میں مسلمانوں کا جم غفیر موجودتھا۔مولانا امداد اللہ نے مشتعل بھیڑ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرے بیٹے کی ہلاکت کاانتقام یا فساد برپا کرنے کی کوشش کی گئی تو میں امامت چھوڑکر شہر سے دور چلا جاؤں گا۔

انہوں نے مزیدکہا کہ میں شہر میں امن وامان دیکھنا چاہتا ہوں ۔فسادیو ں نے میرے بیٹے کی جان لے لی ہے۔مگر میں یہ نہیں چاہتا کہ کسی او رخاندان کو بھی اس دکھ کا سامنا کرنا پڑے ۔مزید گھروں میں آگ لگے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو انتقام کا جذبہ چھوڑ دیں۔مولانا کی اس اپیل سے عید گاہ میں جمع مسلمان رونے لگے۔