جہاں ساری دنیا میں جمہوریت کا بول بالاہورہا تھا وہیں جنگل میں بھی جمہوریت کی بنیاد پر راجہ کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔
اس جنگل میں بندروں کی اکثریت پائی جاتی تھی اس لئے رائے دہی کی بنیاد پر بندر جنگل کاراجہ منتخب ہوگیا۔
اس کے بعد کسی کو بھی نہ تو شیر کا ڈر رہا او ر نہ ہی ہاتھی کا خوف تھا۔جب بھی کوئی بندر راجہ کے پاس شکایت لے کر جاتا تو اچانک پیڑ پر اچھل کود کرنے لگتا ‘ ایک ڈالی سے دوسری ڈالی پرچھلانگ لگاتا۔
جنگل کے جانوروں کو اس بات کا پتہ چلاگیا ہے کہ بندر شکایت پر کچھ کرنے والا نہیں ہے سوائے پیڑوں پر چھلانگیں لگانے کے کچھ اور نہیں کرتا۔ اس بات کا اندازہ ہونے کے ساتھ ہی جنگل میں جانور آپس میں لڑائے جھگڑے شروع کردئے اور حالات بے قابو ہوگئے ۔
بندر کو اس بات کا اندازہ تھا کہ اس کی جنگل میں اکثریت ہے اور دوبارہ زیادہ ووٹ حاصل کرکے وہ اقتدار میںآجائے گا ۔ مگر جس طرح کے حالات جنگل میں پیش ائے ہیں اسکا ذمہ دار کون ہے ۔
اس کہانی سے ایک سبق ضرور ملتا ہے کہ وو ٹ کی اکثریت کی بنیاد پر بندروں کا اقتدار پر آنا ناصرف جمہوریت کے لئے خطرہ ہے بلکہ ترقی میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے