ایک مسلم شخص اپنی ہندو اہلیہ کی خواہش کی تکمیل کے لئے جدوجہد کررہا ہے

نئی دہلی۔وہ ہندو تھی او ریہ مسلمان ہے۔ اس نے کلکتہ یونیورسٹی سے فارسی زبان کے لئے تعلیم حاصل کی اور اُس نے بنگالی میں ماسٹر کیا تھا۔ دونوں کے درمیان معاشقہ چلا اور وہ خصوصی میریج ایکٹ کے تحت 1998میں شادی کرلی تھی۔

دونوں اپنے اپنے مذہب پر عمل کرتے رہے۔پچھلے ہفتہ ناویدیتا گھاتک رحمن کی موت ہوگئی۔ اسی روز نویدیتا کے آخری رسومات ناگم بودھ گھاٹ پر انجام دئے گئے ۔

مند ر سوسائٹی کی جانب سے بکنگ کی منسوخی کے بعد گھر والوں نے نویدیتا کی شرادھ تقریب میں حصہ نہیں لیا۔تاہم ایک سماجی تنظیم نے تقریب منعقد کرنے کی پیشکش کی ۔

کلکتہ نژاد محمد امتیاز الرحمن نے ٹی او ائی سے بتایا کہ ’’ ہم نے6اگست کے روز چترانجن پارک کالی مندر سوسائٹی میں بکنگ کرائی تھی او راس کے لئے 13سوروپئے بھی اداکئے جو12اگست کی تقریب کے لئے دئے گئے تھے۔ مگر مجھے دفتر سے ایک فون کال وصول ہوا۔

دوسرے طرف کے شخص نے کہاکہ رسومات پورے نہیں ہوسکتے۔میں نے وجہہ پوچھی مگر اس نے صرف بنگال میں جواب دیا ’’ آپ سمجھ سکتے ہیں‘‘۔انہو ں نے کہاکہ ’’ فون کرنے والے نے جمع کی گئی رقم بھی اکر واپس لینے کے لئے کہا۔ میں نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ میں نے یہ رقم اپنی بیوی کے شراد کے لئے جمع کرائی تھی۔

امتیاز بطور اسٹنٹ کمشنر ‘ڈائرکٹوریٹ ٹیکسس مغربی بنگال کام کرتے ہیں جبکہ نویدیتا کلکتہ اسکول میں پڑھاتی تھیں۔صدر سی آر پارک کالی مندر سوسائٹی اشویتا بھومیک نے کہاکہ ’’ ہم ہندو قوانین کو تبدیل نہیں کرسکتے ۔

تاہم می ں جانچ کروں گاکہ کن وجوہات کی بنا پر منسوخی کی گئی ‘‘۔

متوفی ٹیچر کی بہم کرتیکا نے کہاکہ اس کیمندر انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے جارہے اعتراضات کے برعکس ناگم بودھ شمشان نے بنا ء کسی توقف کے آخری رسومات انجام دینے کا موقع فراہم کیاہے۔

متوفی ہندو ٹیچر کی بیٹی الہانی امبرین نے کہاکہ ’’میری ماں46سال کی تھی ‘ کم عمر میں ان کی موت ہوگئی‘ مگر جس طرح کی زندگی انہوں نے جی تھی اس کی بناء پر ہم نے شمشان گھاٹ میں ان کے آخری رسومات انجام دینے کا فیصلہ کیاتھا‘‘