اپنے الائنس کو وسیع کرنے کی کوشش‘ ساتھیوں کے ساتھ رابطوں کااحیاء اور این ڈی اے کا جو حصہ نہیں ہیں ان کے ساتھ بھی انتخابات کے بعد ضرورت پڑنے پر اتحاد کرنے کی فراغ میں ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک اہم مہم یہ ہے کہ اپوزیشن کے’’عظیم اتحاد‘‘ کے مقابلے کے لئے ایک مستحکم اور مضبوط قیادت بطور مقابل پیش کرنا ہے۔ مگر پریشانی یہ ہے ۔ مذکورہ بی جے پی کو 2014میں اکثریت حاصل ہونے کے باوجود وہ نیشنل ڈیموکرٹیک الائنس کی اتحادی حکومت چلارہی ہے۔
مزید اہمیت کے ساتھ وہ اپنے الائنس کو وسیع کرنے کی کوشش‘ ساتھیوں کے ساتھ رابطوں کااحیاء اور این ڈی اے کا جو حصہ نہیں ہیں ان کے ساتھ بھی انتخابات کے بعد ضرورت پڑنے پر اتحاد کرنے کی فراغ میں ہے۔
یہاں تک کہ تمام کی نظر اپوزیشن کے ’’ عظیم اتحاد‘‘ ہے او رمذکورہ بی جے پی کی خاموشی کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوشش پر کوئی توجہہ نہیں دے رہا ہے۔پارٹی کی اعلی قیادت میں اسبات کا احساس ہے کہ 2014کی اکثریت دوبارہ حاصل کرنا مشکل ہے۔
اس پارٹی نے ناتھ ‘ ویسٹ اور سنٹرل انڈیا میں بڑی پیمانے کی جیت حاصل کی تھی‘ یہاں پر شکست واضح نظر آ رہی ہے۔ایسٹ او رساوتھ میں امکانی بڑھت بھی اس کی بھرپائی کرتی نظر نہیںآرہی ہے۔یہ تجزیہ نریندر مودی اور امیت شاہ دونوں کے لئے تشویش کا سبب بنا ہوا ہے۔
اس کی پہلی نشانی بہار میں دیکھنے کوملی۔ نتیش کمار نے مساوی او رقابل احترام الائنس میں حصہ کے طور پر مانگا۔ ریاست میں جہاں بی جے پی نے چالیس میں سے 22سیٹیں پر جیت حاصل کی تھی ‘ اتنی کی سیٹیں کمار کو دینے کے لئے اس احساس کے ساتھ رضا مند ہوگئی ہے کہ کمار کسی دوسرے الائنس کاحصہ اگر بن جاتے ہیں تو سہ رخی مقابلے بی جے پی کے لئے نقصاندہ ثابت ہوجائے گا۔
ٹھیک اسی طرح بات مہارشٹرا میں بھی دیکھنے کو ملی۔شیوسینابی جے پی کی پرانی ساتھی مگر اکثر مودی اور شاہ کو اس کے لیڈروں نے نشانہ بنایا ہے۔
مہارشٹرا میں کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس کے چیالنج کا سہ رخی مقابلہ مشکل ہونے کا اندازہ ہونے کے بعد بی جے پی نے سینا کو زیادہ سیٹیں دینے پر اکتفا کرلیا۔
اسی طرح کا طریقہ کار تاملناڈو میں اتحاد قائم کرنے کے لئے کیاگیا جہاں پر بی جے پی کمزور ہے اورجانتی ہے اے ائی اے ڈی ایم کے اور پی ایم کے کی اس کو ضرورت ہے۔یہ نہ صرف ایک اتحاد ہے ۔
اس کے علاوہ بی جے پی بات چیت کے دروازے متوقع ساتھیوں کے ساتھ بھی کھلے رکھے ہوئے ہے۔ اڈیشہ میں بیجو جنتادل‘ تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس کے ساتھ اس کی بات چیت جاری ہے۔
انتخابات سے قبل مذکورہ پارٹیاں بی جے پی کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے کیونکہ انہیں اپنے اعداد وشمار میں بگاڑ کا ڈر ہے۔
بی جے پی کے پاس پی ایم کا چہرہ ہوسکتا ہے جو اپوزیشن کے پاس نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کسی دوسری پارٹی سے زائد سیٹوں پر بھی جیت حاصل کرلے مگر 2019کا مقابلہ دو بڑی اتحاد کے درمیان میں ہے