آرمی کے 23جوان جن پر لکچرر کے قتل کا الزام ہے کہ خلاف کاروائی کے لئے جموں کشمیر پولیس نے مرکز سے منظوری مانگی 

مذکورہ پولیس نے کہاکہ آرمی نے اب تک تحقیقات میں تعاون کیا تھا اور تحقیقات کرنے والوں کو جوانوں کے بیانات قلمبند کرنے کی اجازت دی تھی۔
جموں اور کشمیر۔ریاست کی پولیس سے منظوری مانگی ہے کہ وہ ان 23آرمی جوانوں سے پوچھ تاچھ کریں جن پر مبینہ طور سے ایک 30سالہ کالج لکچرر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے‘ کہاجاتا ہے کہ مذکورہ لکچرر کو 2016اگست میں فوجی تحویل میں بری طرح پیٹا گیاتھا۔

انڈین ایکسپریس کی مذکورہ شائع خبر میں اس بات کا بھی تذکرہ کیاگیا ہے کہ آرمس فورسس اسپیشل پاؤر ایکٹ کے تحت فوجی جوانوں کی گرفتاری کے لئے اس طرح کی منظوری ضروری ہے۔پولیس نے کہاکہ اب تک آرمی نے تحقیقات میں تعاون کیاتھا اور جوانوں کے بیان قلمبند کرنے کی منظوری بھی دی تھی ۔

اونتی پور کے سینئر سپریڈنٹ آف پولیس محمد زاہد نے کہاکہ ایس ائی ٹی نے دوہفتوں میں تحقیقات مکمل کرلی ہے۔زاہد نے کہاکہ ’’ ہم نے اب تک چارچ شیٹ داخل نہیں کی ہے۔ اس کیلئے ہم اے ایف ایس پی اے کے تحت پوچھ تاچھ کے لئے منظوری درکار ہے۔

ہم تحقیقات کے ذریعہ جو باتیں نکل کر سامنے ائی ہیں اس کے متعلق کسی قسم کی گفتگو نہیں کرسکتا‘‘۔اگست18سال2016میں کشمیر کے پھلواماں ضلع کے گھیریو علاقے کے اندر ہندوستانی فوج کی رات دیر گرئے دھاوے میں شبیر احمد مونگا نامی ایک لکچرر کی موت ہوگئی تھی۔ مقامی لوگوں کی جانب سے پولیس کے دھاوے کو روکنے کی کوشش میں اٹھ لوگ زخمی بھی ہوئے تھے۔

مکینوں نے مبینہ طور سے یہ کہاتھا کہ سکیورٹی جوانوں نے تیس لوگوں کو گرفتار کرکے لے گئے تھے۔مقامی لوگوں کا کہنا تھا انتقال سے قبل مونگا کو اذیتیں بھی دی گئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق جنوری میں حکومت نے راجیہ سبھا کو اسبات کی جانکاری دی تھی کہ اس کو سکیورٹی فورسس سے پوچھ تاچھ کی منظوری کے متعلق کشمیرحکومت سے پچاس سے زائد درخواستیں وصول ہوئی ہے۔

جس میں سے 47درخواستوں پر منظوردینے سے انکا رکردیاگیا ہے جبکہ ایسی تین درخواستیں زیر التوا ہیں۔سکیورٹی فورسس پر عام شہریوں کے قتل ‘ زیر تحویل اموات‘ گمشدگی‘ عصمت ریزی اور جنسی استحصال کے مقدمات درج ہیں۔