پہلے ایک سو دنوں میں اترپردیش کے چیف منسٹر نے سہارنپور میں طبقہ واری فساد کا مشاہدہ کیا‘ مسلخوں کو بند کرایا اور بجرنگ دل کے لوگوں نے اگرہ میں ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا
لکھنو( یوپی): بہت جلد اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ اپنے دفتر کے ایک سو دن پوریں کرنے والے ہیں۔ اس دور کو مختلف واقعات پر مشتمل دور کیاکہاجائے گا۔ جس میں غیر قانونی طریقے سے چلائے جارہے مسلخوں کو بند کرنا ‘ مخالف رومیو اپریشن ‘ موافق ہندوتنظیموں کی جانب سے گاؤ رکشہ کے واقعات‘ اور حالیہ دنوں میں بی جے پی او ربجرنگ دل کارکنوں کی جانب سے اگرہ کے پولیس اسٹیشن پر پیش آیا حملہ ‘سہارنپور میں غیرموثر پولسینگ جس کی وجہہ سے دوگرہوں اعلی ذات کے ٹھاکروں اور دلتوں کے درمیان میں مجسمہ امبیڈکر پر پھول مالا چڑھانے کو لیکر ہوا تشدد شامل ہے۔
ابتداء میں ادتیہ ناتھ نے فیصلے کیا کہ وہ اکھیلیش یادو کے دور کے کسی بھی عہدیدار کو نہیں بدلیں گے۔ مگر اس کے فوری بعد مقامی بی جے پی کارکنوں نے احتجاج شروع کردیا اور ان نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ ساتھ ایس ایچ او کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد فتح پور سکری کے قریب میں 22اپریل کو بجرنگ دل کارکنوں نے ڈپٹی سپریڈنٹ کے ساتھ بدسلوکی کی اور مطالبہ کیاان کے گیارہ ساتھیوں کے خلاف دائر کردہ ایف آئی آر کو منسوخ کیاجائے ۔اس کے بجائے بجرنگ دل کے پانچ کارکنوں کو گرفتار کرتے ہوئے اگر ہ میں صدر بازار پولیس اسٹیشن کو منتقل کردیاگیا۔
غضبناک ہوکر زعفرانی تنظیموں کے کئی لوگوں نے ’تھانے‘ میں جبری طور پر داخل ہوکر لاکپ توڑنے کی کوشش کی۔ ایک سب انسپکٹر کو پیٹا گیا اور گاڑی بھی جلادی گئی۔ بجرنگ دل کارکنوں کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کے اس سارے واقعہ کی عینی شاہد کوئی اور نہیں بلکہ بی جے پی ایم ایل اے اودئے بھان سنگھ تھے۔واقعہ کے ایک ہفتے کے اندر تلوار اگر ہ کے ایس ایس پی پریتیندر سنگھ پر گری اور ان کا تبادلہ کردیاگیا۔مگر کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوئی ۔اگرہ علاقے سے بی جے پی کے تمام اراکین ایم ایل اے اور ایم پیز نے چیف منسٹر سے ملاقات کرتے ہوئے بجرنگ دل کارکنوں کے خلاف دائر کردہ مقدمہ کو تحقیقات کے لئے دوسرے ضلع متھرا منتقل کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
پولیس ذرائع نے اس بات کی توثیق کی ضلع عدالت کی جانب سے بجرنگ دل کارکنو ں کی ضمانت نامنظور کئے جانے کے بعد تحقیقاتی عہدیداروں کو اس بات کی واضح ہدایت جاری کی گئی کہ وہ مذکورہ مقدمہ سے ائی پی سی کے تمام دفعات کو فوری طور پر ہٹادیں۔درایں اثناء بھیم آرمی کے سربراہ اور دلت لیڈر چندرشیکھر جو سہارنپور میں ٹھاکروں کے خلاف فساد برپا کرنے کے لئے بھیڑ کا اکسانے کا اصل مجرم ہے کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ مقامی آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں نے علاقے میں تناؤ بڑھانے کی اصل ذمہ دار ہیں۔
مگر آخر میں ایس ایس پی لوکمار کو ضلع سے نہ صرف ہٹادیاگیابلکہ ان کے گھر کو بی جے پی کارکنوں نے آگ لگادی جنھوں نے درجنوں فسادیوں کو گرفتار کیا اور سہارنپور کے بی جے پی رکن پارلیمنٹ راگھو لاکھن پوراور بی جے پی ایم ایل اے راجیو گومبیر کے خلاف ایف آئی درج کیاجن دونوں نے علاقائی میں کشیدگی بڑھانے میں اہم رول اد ا کیاتھا ۔ان کے تبادلے کے فوری بعد 5مئی کو پیش ائے واقعہ میں شامل نہ رہنے والے 23افراد کو گرفتار کرلیاگیا۔ ایک سینئر پولیس افیسر کے مطابق بی جے پی نے ایک ماہ قبل ہی بدلہ لینے اور دلتوں کے خلاف تشدد برپا کرنے کی تیار کرچکی تھی۔ نا ہی راگھو لکھن پال اور نہ ہی کسی دوسرے بی جے پی لیڈرکو اب تک حراست میں لیاگیا۔ او ریہ ایک حقیقت بھی ہے کہ ان میں کسی بھی لیڈر کی کبھی بھی گرفتاری عمل میں نہیں ائی گی۔