امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ نے کانگریس کو نظر انداز کرتے ہوئے سعودی عربیہ‘ مذکورہ یواے ای اور اردن کو 8.1بلین ڈالر کی قیمت کے ہتھیار فروخت کرنے کا ایسے وقت میں اعلان کیاجب ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور قومی ایمرجنسی کا حوالہ دیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے جمعہ کے روز کہاکہ وہ 1500زائد دستوں کو مشرقی وسطی روانہ کریں گے تاکہ وہ امریکی دستوں کو جو پہلے سے وہاں پر موجود ہیں ان کی حفاظت کرسکے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق نئی تعیناتی کم ہے جو وائٹ ہاوز کے سخت گیر چاہتے تھے اور علاقے میں قابل لحاظ کمانڈرس بھی کم ہے۔
اپنے ایک بیان میں سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پامپیو نے کہاکہ مذکورہ معاہدہ امریکی اتحادیوں کے لئے”ایرانی جارحیت سے مقابلہ کرنے اور او رساتھیو ں کی دفاعی صلاحیتوں کو تیار کرنے کے لئے ضروری ہے“۔
انہوں تہران کے ساتھ شدید کشیدگی کے حوالے سے مزیدکہاکہ ”مذکورہ فروخت ہمارے ساتھیوں کی مدد کرے گا‘ مشرقی وسطی کو استحکام فراہم کرے گا اور ان ممالک کو اسلامی ریپبلک ایران سے خود کوبچائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا“۔
پامپیو کا قانون سازوں کے لئے اعلامیہ میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دیکھائی گئی ہری جھنڈی کی تفصیلات بتائی گئی ہے جس میں بموں‘ میزائیل نظام‘ سیمی اٹومیٹک رائفلس‘
ڈرونس اور سعودی فضائیہ کو درستگی اوربحالی کے خدمات کے علاوہ یمن کی خانہ جنگی کے دوران قانون سازوں کو درپیش سوالات کی تفصیلات ہے۔
کچھ ڈیموکریٹس نے ٹرمپ پر الزام عائد کیاہے انہوں نے کانگریس کو نظر انداز کرتے ہوئے ہتھیار وں کی فروخت اس لئے کی ہے کیونکہ کیپٹل ہال نے اس کی سختی سے مخالفت کی ہے