مسلم مخالف تشدد ایک نئے مرحلے میں داخل‘ کیاہندوستانی جمہوریت میں اب اقلیتوں ‘ بالخصوص مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی ہے؟۔

جواہرلا نہرو یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں ریسرچ اسکالر ابھئے کمارکا تبصرہ
راجستھان میں چہارشنبہ کے روز رونما ء ہوئے مسلم مزدور کے بہیمانہ قتل کے بعد ‘ ملک بھر میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سب سے زیادہ بے چین اقلیتی طبقے کے لوگ ہیں۔ سوشیل میڈیا پر لوگ اپنے شدید ردعمل کا اظہار کررہے ہیں ۔ جو سوال کئی ذہنوں کو پریشان کررہا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کیاہندوستانی جمہوریت میں اب اقلیتوں‘ بالخصوص مسلمانوں ‘ کے لئے جگہ نہیں بچی ہے؟ پہلے بھی مسلم مخالف فسادات اور تشدد انجام دئے جاتے رہے ہیں مگر آج حالات اتنے بدتر ہوگئے ہیں کہ ایسی درندگی پر افسوس او رملال نہیں بلکہ فخر محسوس کیاجارہا ہے۔ فرقہ وارایت کا زہر بھگوا انتہا پسندوں کے لوگوں میں اس قدر دوڑ رہا ہے کہ ’ہندو سماج ‘ او ر’ دیش‘ کے نام پر مسلم دشمنی کو اپنا ’’ فرض ‘‘ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ا س پوری قواعد میں انہیں حکومت او رانتظامیہ کی پوری حمایت حاصل ہے۔جہادیوں یہ تمہاری حالت ہوگی۔ یہ بات مبینہ قاتل شمبھو لال ریگر نے مسلم مزدور افرازالاسلام کو بڑی بے رحمی سے ہلاک کرنے کے بعد کہی۔

اس نے یہ گھناؤنا کام 6ڈسمبرکو انجام دیا۔ یہ وہ سیاہ دن تھا جب بابری مسجد کو ہندودہشت گردوں نے پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے شہید کردی تھی۔ یہ دن ہندوستانی ائین کے معمار بابا صاحب امبیڈکر کا یوم وفات بھی ہے ۔ جب پورا ملک بابا صاحب کو خراج عقیدت پیش کررہاتھا ‘ تب شمبھولال ایک افرازالاسلام کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ائین پر پے در پے وار کررہاتھا۔شمبھولال راجستھان کے راجسمنڈ ضلع کا رہنے والا ہے جبکہ مقتول افرازالاسلام مغربی بنگال کے مالدہ ضلع کے تھے۔ گذشتہ 15سالوں سے مقتول راجسمنڈ میں مزدور کے طور پر کام کررہے تھے۔ پردیس میں مزدوری کرنے والے فرازالاسلام اپنی بیٹی کی شادی کی تیاری میں لگے ہوئے تھے مگر بیٹی کی ڈولیاٹھنے سے پہلے ہی افرازالاسلام کا جنازہ اٹھ گیا۔ ان کا مسلم تشخص ان کی موت کا سبب بن گیا

۔مگر سب سے لرزہ خیزبات یہ ہے کہ قاتل شمبھولالنے اپنے ایک رشتہ دار بچے کی مدد سے اس پورے واقعہ کا ویڈیو بنایا جو بعد میں وائیرل کیاگیا۔وائیرل ویڈیو کودیکھ کر دل دہل جاتا ہے ۔ کس بے رحمی سے شمبھولا ل نے کلہاڑی سے پے درپے وار کیاتھا پھر تیل چھڑک کر افرازالاسلام کو زندہ جلادیا۔یہ ویڈیو ہمارے سماج میں اثر کرچکے فرقہ پرستی اور مسلم مخالف جذبات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر اب بھی اس کینسر کا علاج نہیں کیاگیاتو ہماری مشترکہ تہذیب اور تنوع پر مبنی سماج تباہ ہوجائے گا۔شمبھولال جیسے لوگ ہمارے معاشرہ میں اکیلے نہیں ہیں۔ ان کی تربیت او رذہن سازی کی جارہی ہے۔ جو کسی افرازالاسلام ‘ کسی جنیدکسی اخلاق کا قتل کرنے کے لئے گھوم رہے ہیں۔ ان لوگوں کو بھگوا لیب میں تیار کیاجارہا ہے۔

اس لئے میں نہیں مانتا کہ شمبھولال نے یہ درندگی اس لئے انجام دیا کیونکہ وہ دماغی طور سے بیمار ہے یا پھر نشہ کا عادی ہے۔ جو لوگ ایسی دلیل دے رہے ہیں وہ فرقہ پرستی او رنفرت کی سیاست کو ہوادینے کاکام کررہے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ مسلم ۔ مخالف تشدد نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے جہاں مسلمانوں کو ’سبق‘ سیکھانے کے نام پر اسلحہ اٹھانے کے لئے اکسایا جارہا ہے اور وہ اپنی سفاکیت کو صحیح ٹھیرا رہے ہیں۔آپ میں سے بہت لوگوں نے شمبھولال کی وائیر ویڈیو والی تقریر سنی ہوگی ۔ یہ ویڈیو نے اس نے الگ سے تیار کیااور اس سوشیل میڈیا پر پوسٹ کیاجس میں اس نے اپنی سفاکیت کو درست ٹھرایا۔ جب وہ بول رہا تھا تو اسکے پیچھے بھگوا جھنڈا بھی تھا۔ اس تقریب میں ہی سارے موضوعات تھے جس کے اوپر بھگوا طاقتیں اپنا کاروبار کرتی ہیں۔

یہی سارے موضوعات پر روز اخبار میں صفحہ اول پر جگہ پاتے ہیں۔ نیوز چیانل کے اینکر چیخ چیخ کر انہی موضوعات کو اٹھاتے ہیں۔ ایسا اس لئے کیاجاتا ہے کہ عوام مذہب کے نام پر لڑتی رہے اور عوامی مسائل پر کبھی کوئی بحث نہ ہو۔وائیرل ویڈیو میں قاتل شمبھولال نے کہاکہ اس نے اپنی زندگی کی بازی ’ ہندو بہنوں‘ کے عزت کی خاطر لگائی جو مذکورہ ’ جہادیوں‘کے ’ پریم جال ‘ میں پھنس جاتی ہیں اور پھر یہ جہادی’ اسلامی نظام ‘ کے مطابق ان کے ساتھ اپنی ہوس مٹاتے ہیں۔ شمبھولال نے مزیدکہاکہ دیش میں ’ لو۔جہاد‘کے نام پر ہندو عورتوں کا استحصال کیاجارہا ہے او راسلامی ممالک سے درآمد کیاگیا زہر( ہندو) نوجوانون نسل کو برباد کررہا ہے۔

کیاشمبھولال کی دلیل خود اس کے دماغ کا فتنہ اور فتور ہے؟ کیاشمبھولال اور بھگوا سیاسی لیڈروں کی دلیل میں مماثلت نہیں ہے؟ کیا بھگوا تنظیم لوجہاد کی جھوٹی بحث اور مسلم مخالف پروپگنڈے کی خالق نہیں ہے؟ ہادیہ کیس کوہی لیجئے ‘ کس طرح ایک شہری کو اپنی مرضی کے مطابق مذہب بدلنے او راپنے شوہر پسند کرنے کے بنیادی ‘ ائینی حقوق سے محروم کیاجارہا ہے۔ شمبھولال کی لو۔ جہادکے متعلق تقریر کو اسی سیاق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔لوجہاد کی باتیں میرے گاؤں کے دوست اور رشتہ دار بھی کہتے ہیں کہ ہندو لڑکیاں مسلم لڑکوں کے پیار میں پھنس رہی ہیں۔میں نے جب ان سے سوال کیاکہ ہندوستان کے ائین میںیہ حقوق دئے گئے ہیں کہ کوئی بھی کسی سے اپنی مرضی کے مطابق شادی کرسکتا ہے تو ان کا جواب تھا کہ ہم ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے۔

ان میں سے کچھ نے تو مسلم سے شادی کرنے والی ہندو لڑکیوں کو سزا کے طور پر قتل کرنے تک کی وکالت کی ۔ ہندو فرقہ پرست ایک لمبے وقت سے مسلمانوں پر جھوٹا الزام لگاے رہے ہیں کہ انہوں نے ہندو عورتوں کی عزت تار تار کیاہے۔اس کے علاوہ شمبھولال نے پدماوتی اور پی کے جیسی فلموں کا بھی ذکر کیا۔اس نے الزام لگاا کہ اس طرح کی فلمیں ہندودیوی دیوتاؤں کی بے حرمتی کرتی ہیں اور اس طرح ہندو دھرم کی تاریخ کو بدلا جارہا ہے۔ کیاپدماوتی فلم کے معاملے میں جو واویلا مچایاگیا اس کے پیچھے بھگوا طاقتوں کا ہاتھ نہیں تھا؟

کیایہ سب گجرات اسمبلی الیکشن کو دھیان میں رکھ کر نہیں کیاگیا؟اگر شمبھو لال پدماوتی فلم دیکھنے سے پہلے ہی اس فلم کو ہندوؤں کے خلاف مان لیتا ہے اور اس کے انتقام میں ایک معصوم مسلم مزدور کو ماردیتا ہے تو کیا وہ اکیلااس کے لئے ذمہ دار ہے؟۔اپنی تقریر میں وہ پاکستان کا نام بھی لیتا ہے۔ پاکستان ہمارا پڑوسی ملک ہے او ربھارت کا ائین اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ اچھے تعلقات کی بات کرتا ہے مگر صرف سیاست کے لئے پاکستان کو ضرورت سے زیادہ ہد ف تنقید بنایاجارہا ہے۔ جس کے پیچھے بڑا مقصد ایک خاص مذہبی طبقہ کو نشانہ بنایا ہوتاہے۔

اگر پاکستان کو لے کر شمبھولال اتنا بے چین ہے تو اس کے دماغی میں ا س طرح کی بے چینی کون پیدا کررہا ہے؟۔علاوہ ازیں اس نے ہندوؤں سے اپیل کی کہ وہ ذات برداری سے اوپر اٹھ کر جہادیوں کے خلاف متحد ہوں ۔ ذات پات سے اوپر اٹھنے کی بات اکثربھگوا تنظیمیں کہتی ہے جس کے پیچھے ان کامقصد ہوتا ہے کہ نچلی اور پسماندہ ذات کے لوگ اعلی ذات کے لوگوں کے ہاتھوں ہورہے غیر برابریسلوک اور استحصال کو بھول جائیں اور اپنی پسماندگی کے لئے کسی اور ( مسلم)کو قصور وار مانے۔پس شمبھولال جو بھی بو ل رہا تھا اس کی اسکرپٹ کہیں اور لکھی گئی ہے۔ اپنی بات ختم کرنے سے پہلے آپ کو یاد لاتا چلوں کہ راجستھان میں اسمبلی انتخابات اگلے ہی سال ہونے والے ہیں اور یہ معاملہ فرقہ پرست طاقتیں ہندو رائے دہندگان کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے استعمال کریں گی