نظم کی شروعات سے قبل صوفیان نے مالیگاؤں کی عوام کا خیرمقدم کیااور کہاکہ ملیگاؤں کے عمائدین کو سارے ملک میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔تاج محل پر نظم سے قبل اپنے اشعار میں صوفیان نے جہاں کہیں پر بھی بم دھماکہ ہوتا ہے تو دڑاھی ٹوپی والوں کو نشانہ بنایاجاتا ہے ۔
انہو ں نے کہاکہ جب کبھی بھی تلاش لو گے سوائے مصلے اور قرآن کے کچھ بہ پاؤ گے۔
صوفیان نے تاج محل کے متعلق چل رہی بحث کے حوالے سے کہاکہ آج مغلوں کی بنائے ہوئے آثار کو نشانہ بنانے کاکام کیاجارہا ہے۔
صوفیان نے کہاکہ یوگی جی کا کہنا ہے کہ تا ج محل کا نام بدل کرتیجو محل رکھ دیاجائے۔
ائے دن نفرت بھرے بیان آتے رہتے ہیں۔صوفیان نے نظام کے شروعاتی شعر میں کہاکہ
کیا آپ نے کیا ہے بتا دیجئے حضور‘کچھ آپ بھی بنا کے دیکھا دیجئے حضور
مغلوں کی عمارت سے جو نفرت ہے تمھیں تو‘ان ساری عمارت کو گرا دیجئے حضور
تم نے تو صرف بوئیں ہیں نفرت کے بینچ بس‘ الفت وطن تھی تو کچھ کردیکھاتے تم
ہوتا نا اگر تاج محل لال قلعہ تم‘ دنیا کو صرف گائے اور گوبر دیکھاتے تم
صفیان نے اپنی نظم میں سونو نگم کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ‘ اذان کے متعلق نگم کے ریمارکس اپنے اشعار میں کہاکہ
دل میں زہر نفرت گھولنے سے کچھ نہیں ہوگا‘تیری گندی زباں کے کھولنے سے کچھ نہیں ہوگا‘
رہی جب تلک دنیااذان گونجے گی مائیک سے ‘کسی سونو نگم کے بولنے سے کچھ نہیں ہوگا
روہنگی مسلمانوں کے ساتھ ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی صوفیان نے نظم پیش کی اور کہاکہ
میں برما ہوں تو سن لے فریاد میری‘ خدارا کرے کوئی امداد میری
یہ دنیا کے مسلم کہاں سوگئے ہیں‘ کہاں عیش وعشرت سب کھوگئے ہیں
کوئی بھی نہ آیا مدد کو ہماری ‘ ہوئی زندگانی ہے برباد میری
میں برما ہوں تو سن لے فریاد میری‘
تو ترکی کے طیب سا سب کو بنادے‘ الہی تو اب اپنی قدرت دیکھا دے
نہایت جذباتی انداز میں صوفیان نے روہنگی مسلمانوں کے حالت زار پر نظم پیش کی۔
پیش ائے پوری نظم ملاحظہ فرمائیں
https://www.youtube.com/watch?v=0A_eR2TB5HI&feature=youtu.be