صرف سوشیل میڈیا کو مور د الزام مت ٹہرائیں‘ لینچنگ میں اموات کے قصور وار ہ بھی ہیں۔

کرن تھاپر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ لینچنگ ایک بیماری ہے جس سے نقصان ہوتا ہے مگر ہم طاقتور ہیں اس کو دیکھنے کے لئے؟یا پھر ہم اس کو درکنار کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ کوئی پیغام دیں؟یہ بہت آسان ہے کہ ہجومی تشدد کی ذمہ داری واٹس ایپ پر عائد کردیں جو ملک بھر میں رونما ہورہی ہے۔

کچھ حکومت میں اور کچھ اس سے باہر۔ مگر صرف واٹس ایپ ہی پیغام پہنچانے والا ہے۔ اس کو قصور وار ٹہرانا ہے ایسا ہے جیسے پوسٹ مین کو خراب خبر کے لئے قصور وار ٹہرانا ہے۔

یہ نہ صرف غیرمنطقی ہے ‘ یہ بچکانہ بھی ہوگا۔تاہم پچھلے سال پیش ائے لیچنگ کے 34واقعات یہاں پر ضرور ی ہوگیا ہے کہ اس پر قصور وارکی ذمہ داری عائد کی جائے۔ پھر وہی کہ ہمیں جاننے چاہے کہ کہاں پر ہمیں توجہہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

پہلے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ پیغام کون بھیج رہا ہے اور پھر زیادہ اہم یہ ہے کہ کس پر کونسا ہجوم کاروائی کررہا ہے۔

پہلے واقعہ میں عام خطرے کو پھیلایاگیا۔اس میں کم سے کم تین واقعات مہارشٹرا ‘ حیدرآباد اور جھارکھنڈ میں فرضی ویڈیو مسیج ایک صحافی اور اسٹرینگر کے کام کیا۔یا تو وہاں پر برہمی کے ساتھ پیٹائی کا مقابلہ کررہے تھے یا پھر اپنی طرف توجہہ مبذول کروانے کی کوشش۔

ہوسکتا ے دونوں۔آسام میں یہ اسکول سے تعلیم منقطع کرنے والے پر کام کیا‘ مبینہ طور پر یہ کربی اسٹوڈنٹ یونین کے بااثر رکن تھا۔اب بھی یہ منفرد ہیں۔

ان کا مقصد ہوسکتا ہے ایک ہے اور مجھے شک ہے کہ ان دونوں کے درمیان میں موثر تعلق بھی موجود ہے۔ ایسے لوگ تمام سماجوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا ردعمل لومڑیوں کی طرح ہوتا ہے کہ وہ خطرناک نقصان نقصان پہنچاسکتے ہیں۔یہ الگ معاملہ ہے جب ان مسیج پرکونسا ہجوم ردعمل پیش کرتا ہے۔

وہ حقیقی تشدد برپا کرنے والے ہیں۔نہ صرف ان کے ہاتھوں میں خو ن لگا ہوتا ہے بلکہ ان کے دل دماغ بھی آلودہ رہتے ہیں۔

میں کوئی ماہر سماجیات یا پھر نفسیات نہیں ہوں مگر کچھ ایسا ہوتا ہے کہ تو خطرناک ہے۔

اگر کوئی واٹس ایپ مسیج پر ردعمل پیش کرتا ہے تو اس میں کوئی بات ہے کہ متاثرین کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہوتاجس کی وجہہ سے حقیقی انصاف نہیں ملتا۔ یہ بیماری ہے جس کے متعلق کہنے میں مجھے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔