نئی دہلی: جمعہ کے روز دہلی ہائی کورٹ نے سٹی پولیس کو جواہر لا ل نہرو یونیورسٹی( جے این یو) کے لاپتہ طالب علم نجیب احمد جو پچھلے سال اکٹوبر سے لاپتہ ہے کی تلاش کے متعلق طریقہ کار پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس ویپن سانگھی اور جسٹس دیپا شرما پر مشتمل بنچ نے دہلی پولیس سے کہاکہ’’ پولیس کی جانب سے کی جارہی تحقیقات غیر تشفی بخش ہونے کے تاثرات نظر آرہے ہی‘‘۔اور بنچ کے جائزے کے مطابق پولیس کے عمل سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ’’ پولیس علیحدگی اختیار کرنے کی غرض سے معاملے کو سنسنی خیز بنانے کی کوشش کررہی ہے‘‘۔
سینئر ایڈ وکیٹ کولین گنزالویس احمد کی والدہ کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے اور ایک نیوزپیپر کا مواد عدالت میں پیش کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ نجیب احمد کی گمشدگی سے قبل اس نے اسلامک اسٹیٹ( ائی ایس) کی ویب سائیڈ کچھ اطلاعات حاصل کرنے کا دعویٰ کیاگیا ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے بنچ نے کہاکہ’’ پولیس کی جانب سے داخل کردہ رپورٹ میں یہ ثابت نہیں ہورہا ہے کہ وہ( احمد) نے کسی شدت پسند وں کی ویب سائیڈ دیکھی تھی‘‘۔
بنچ نے کہاکہ ’’ ہمارے ذہن میں یہ خدشات پیدا ہورہے ہیں کہ پولیس امکانی طور پر اس مسلئے کو سنسنی خیز بنانے کی کوشش کررہی ہے تاکہ تلاشی کے عمل سے راہ فرار اختیار کی جاسکے‘‘۔
عدالت نے کہاکہ پولیس کو اس ضمن میں تحقیقات کروانی چاہئے کہ وہ کون سے افسر تھا جس نے خفیہ جانکاری افشاء کی ہے۔عدالت نے نجیب احمد کی گمشدگی سے ایک روز قبل جن اسٹوڈنٹس کے ساتھ جھگڑے کا واقعہ پیش آیا ان نو طلبہ کو گرفتار کرنے اور ان سے پوچھ تاچھ میں اب تک ناکامی پر بھی پولیس کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
عدالت نے کہاکہ’’ کیا مطلب ہے کہ 400پولیس والو ں کو ملک بھر میں احمد کی تلاش کے لئے روانہ کیاگیا مگر اب تک کسی مشتبہ سے اس کے متعلق پوچھ تاچھ نہیں کی گئی‘‘۔عدالت احمد کی والدہ فاطمہ نفیس کی ایک درخواست پر سنوائی کررہی ہے اور مقدمہ کی اگلی تاریخ15مئی بروز پیر مقرر کی گئی ہے