جموں اورکشمیر میں امکانی اتحاد کے لئے کانگریس مشاورت کی شروعات کی ۔

کانگریس اور پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی دونوں ہی اس کشمکش کاشکار ہیں کہ بی جے پی جموں او رکشمیر میں حکومت تشکیل دیگی یا پھر مرکزی حکومت گورنر این این وہرہ کو مزید سخت ترین شخص کے ساتھ بدلے گی۔
جموں او رکشمیرمیں نئی گٹھ جوڑ کے ساتھ بی جے پی کے حکومت تشکیل دینے کی قیاس آرائیو ں کو پارٹی نے مسترد کردیاہے ‘مذکورہ کانگریس پارٹی بحران کا شکار ریاست میں سیاسی حالات پر تبادلہ خیال کے لئے سلسلہ وار میٹنگ کررہی ہے او رسمجھا جارہا ہے کہ وہ اتحاد قائم کرنے کی کوشش کریگی جو ممکن ہے کہ پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی( پی ڈی پی ) سے ہوگا۔یہ اقدام 19جون کو بی جے پی کی حمایت سے دستبرداری کے بعد پی ڈی پی کی زیرقیادت حکومت کرنے کے پیش نظر اٹھایاجارہا ہے۔

ریاست کے کانگریس سربراہ غلام احمد میر نے کہاکہ پیر کے روز جموں او رکشمیر پر کانگریس کی پالیسی اور منصوبہ سازی کرنے والے گروپ کی ملاقات تھی‘ جس میں سینئر لیڈرس شامل رہیں گے جو منگل کے روز سری نگر میں منعقد ہونے والی میٹنگ کے زمینی حالات کاجائزہ لیں گے۔

پالیسی پلاننگ گروپ کی نگرانی سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کریں اور اس گروپ میں سابق وزیر مالیہ پی چدمبرم‘ سینئر کانگریس لیڈر کرن سنگھ‘ اور غلام نبی آزادی کے علاوہ پارٹی جنرل سکریٹری اور انچار ج جموں و کشمیرامبیکا سوانی بھی شامل ہیں۔

تازہ تبدیلی سے واقف کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے کہاکہ ریاست میں حکومت کی تشکیل کے متعلق تبادلہ خیال سری نگر کے مجوزہ اجلاس کیاجائے گا جس میںآزاد اور سونی بھی شرکت کریں گے۔

کانگریس اور پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی دونوں ہی اس کشمکش کاشکار ہیں کہ بی جے پی جموں او رکشمیر میں حکومت تشکیل دیگی یا پھر مرکزی حکومت گورنر این این وہرہ کو مزید سخت ترین شخص کے ساتھ بدلے گی جو ممکن ہے آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والا ہوگا جس کے متعلق اگلے ماہ امرناتھ یاترا کے اختتام کے بعد فیصلہ کیاجاسکتا ہے۔

کانگریس لیڈر نے کہاکہ ’’ مرکز پہلے سے ہی گورنر کے ذریعہ ریاست پر حکومت کررہی ہے اور ہوسکتا ہے آر ایس ایس کے تقرر کردہ گورنر کے ذریعہ جموں او رکشمیر میں اپنی پکڑ مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

بی جے پی قیادت نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ترجیح گورنر کے طور پر ایک’سیاسی فرد ‘ ہوگا۔بی جے پی جنرل سکریٹری رام مادھو نے بھی پیپلز کانفرنس چیرمن سجا د غنی لون اور آزاد رکن اسمبلی انجینئر رشید سے سری نگر میں پچھلے ہفتے ملاقات کرکے تبادلہ خیال کیاتھا ۔

تاہم رام مادھو نے ریاست میں حکومت بنانے کوششوں کے ضمن میں کی جارہی قیاس آرائیوں کو یکسر مسترد کردیا۔

جموں او رکشمیر کی سابق چیف منسٹر محبوبہ مفتی پچھلے کچھ دنوں سے دہلی میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں جس سے نئی صف بندی پر بحث چھڑ گئی ہے وہیں محبوبہ کے ایک قریبی ذرائع نے بتایاکہ چیف منسٹر کی کرسی سے ہٹنے کے بعد دہلی کے ان کی رہائش گاہ کو خالی کرنے کے لئے کہاگیاتھا جس کی وجہہ سے وہ متبادل رہائش گاہ کے لئے دہلی میں رکی ہوئی ہیں۔

پی ڈی پی قیادت کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ کانگریس اور ان کے درمیان میں کچھ بات چیت ہوئی ہے ’’ محبوبہ اس کے لئے اگے بڑھیں مگر سوال یہ ہے کہ کیاکانگریس بھی اس کے لئے آگے بڑھے گی‘‘۔ مذکورہ دونوں پارٹیاں کانگریس اورپی ڈی پی سرکاری طور پر کچھ بھی کہنے سے بچ رہی ہیں۔

کانگریس سے امکانی اتحاد کے متعلق پوچھنے پرریاست کے سابق وزیر نعیم اختر نے کہاکہ ’’ یہ صرف ہوا میں پتنگ بازی چل رہی ہے ۔

ہم فوری الیکشن چاہا رہے ہیں او رہمیں امید ہے ایسا ہی ہوگا‘‘۔ عمر عبداللہ نے بھی پی ڈی پی سے کسی قسم کااتحاد نہ کرنے کی بات کرتے ہوئے ریاست میں دوبارہ الیکشن پر زوردیا ہے۔انہو ں نے کہاکہ ’’ اسمبلی کو تحلیل کرنے کا ہم نے پہلے ہی مطالبہ کیاہے۔

جمو ں او رکشمیر87سیٹوں کے ایوان میں کانگریس کے پاس محض بارہ ایم ایل ایز ہیں اور کسی بھی پارٹی کو حکومت بنانے کے لئے 44کا ہندسہ پار کرناپڑیگا۔ جبکہ پی ڈی پی کے پاس 28ہیں اور اگر دونوں پارٹیاں ایک ساتھ بھی آتی ہیں تو انہیں مزید چار ایم ایل ایزکی ضرورت پڑیگی۔

یہاں پر سی پی ائی ایم کا ایک اور کشمیر پیپلز ڈیموکرٹیک فورم کے ایک ایک کے علاوہ تین آزاد اراکین اسمبلی ہیں۔بی جے پی کے پاس پچیس جبکہ این سی کے پاس پندرہ ایم ایل ایز اور لون کی پارٹی کے پاس دو ایم ایل ایز موجود ہیں۔ جمو ں کشمیر ایوان اسمبلی کی معیاد چھ سا ل کی ہوتی ہے