بڑے پیمانے پر اخراج۔ یواے پی اے کے تحت دو سو لوگوں پر پولیس کی جانب سے فرضی مقدمات درج کرنے کے بعدمسلمان فرار اختیار کرنے پر مجبور

گرفتاری کے خوف سے سینکڑوں مسلم نوجوان مسلم اکثریتی والے ضلع بھائیرا ج کے گاؤں سے فرار اختیا ر کرنے پر ہوگئے ہیں مجبور
نئی دہلی۔ریاست اترپردیش کے ایک گاؤں میں20اکٹوبر کے روز پیش ائے تصادم میں کم سے کم دو سولوگوں پر یواے پی اے کے تحت فرضی مقدمات درج کئے جانے کی اطلاع کے بعد کئی نوجوان گرفتاری کے ڈر سے گاؤں چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

تصادم اس وقت پیش آیاجب مسلمانوں کی 65فیصد آبادی والے کھیر گاؤں سے درگا وسرجن مورتی کاجلوس لے جایاجارہا تھا۔ انڈین ایکسپرین کی خبر کے مطابق تصادم کے بعد ایک مقامی ہندو شخص کمار شکلا نے جاننے والے ساٹھ مسلمانوں کے نام اور نامعلوم 100سے 200افراد کے خلاف شکایت درج کرائی۔

باونڈی پولیس میں درج کرائی گئی شکایت میں شکلا نے سنسنی خیز طریقہ سے مسلمانوں پر ہتھیار‘ بندوقیں ‘ تلواریں اور بموں کے استعمال کا بھی الزام عائد کیا اور دعوی کیا کہ پچا س تا ساٹھ لوگ تصادم میں زخمی ہوئے ہیں۔

بعدازاں اس کیس کے ضمن میں پولیس نے اٹھارہ لوگوں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی۔نیوز پیپر کے مطابق مذکورہ پولیس نے مانا ہے کہ گاؤں کے مسلمانوں کے خلاف غلطی سے یواے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیاتھااور مزیدبتایا کہ ایف ائی آر میں سے مذکورہ دفعات کوہٹالیاجائے گا۔

مبینہ طور پر 63سالہ جئے تونا نے کہاکہ ’’ یہاں پر مسلمانوں او رہندوؤں کے درمیان تصادم کا واقعہ پیش آیا‘ مگر پولیس نے ہمارے خلاف ہی مقدمہ درج کیا ۔

جلوس میں شامل لوگوں جنھوں نے اینٹوں اور پتھرؤں سے ہم پر حملہ کیاہے ‘ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی ۔ پولیس ہمیں ہی ہراساں کررہی ہے‘‘۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ’’ گھروں پر پولیس کے دھاؤں کے بعد تمام نوجوان گھر چھوڑ کر فرار ہوگئے ہیں۔ جو ہاتھ لگے انہیں گرفتار کرلیاگیا ہے۔

میرا بیٹا 30سالہ رمضان علی ‘ اور 28سالہ نان کاؤ جیل میں ہیں‘‘۔گرفتاری کے خوف سے سینکڑوں مسلم نوجوان مسلم اکثریتی والے ضلع بھائیرا ج کے گاؤں سے فرار اختیا ر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

جو مفرور ہیں ان میں45سالہ محمد رشید سابق صدر گاؤں اور جامعہ مسجد کھیر بازر کے عالم دین ‘ 43سالہ حافظ عبدالباری بھی شامل ہیں۔ایک پڑوسی محمد حسن نے کہاکہ ’’ رشید کے گھر والے بھی گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں‘‘۔

نوجوانوں سے پورا گاؤں خالی ہوگیا ہے اور وہاں پر معمر خواتین او ربچے ہی رہ گئے ہیں۔اس طرح کا واقعہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ۔

سابق میں بھی 2017میں ایسی بہت سارے واقعات پیش ائے ہیں۔ جون کے مہینے میں میرٹھ کے لیساڈی گاؤں سے سینکڑوں مسلم خاندان ہندومسلم تصادم کے بعد پیش ائے فرقہ وارنہ نوعیت کے واقعات کی وجہہ سے اپنے گھر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

اترپردیش میں سماج بی جے پی اور یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت میں زیادہ فرقہ پرستی کی طرف گامزن ہے ‘ اس کی وجہہ یوگی کے مخالف مسلم شبہہ مانی جارہی ہے