بنگلہ دیشی قرار۔نوائیڈا میں پولیس کے دھاوؤں کے بعد گھریلو ملازمین کاکا م کرنے والوں کا غصہ خوف میں تبدیل

جمعرات کی دوپہر کو نوائیڈا سکیٹر 49پولیس اسٹیشن میں ڈیوٹی افیسر کے روم کے باہر ہمہ قسم کے دستاویزات ہاتھ میں تھامے کھڑی22سال کی عابدہ بی بی نے کہاکہ’’ ہم نے ان کی ہی لوگوں کی طرح ہندوستانی ہیں جو بڑی سوسائٹی میں رہتے ہیں۔ مگر ہم نے زندگی میں کبھی نہیں سونچا کا اس طرح ہمیں ہمارے ہندوستانی ہونے کا ثبوت پیش کرنا پڑیگا‘‘۔ عابدہ بی بی کے ہاتھوں میں رکھے دستاویزات میں ان کے اور ان کے شوہر کا ادھار کارڈس ‘ ووٹر ائی ڈی کارڈس اور مغربی بنگال کے ضلع کووچ بہار کی گرام پنچایت کی جانب سے جاری کردہ صداقت نامہ کی زیراکس موجود تھے۔ وہ اپنی ہندوستانی قومیت کی شناخت قائم کرنے کے لئے یہاں پرپہنچے تھے۔ایک روز قبل ہی گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرنیو الے نوائیڈا کے سیکٹر78کی مہاگن ماڈرن سوسائٹی میں اپنی ساتھی ملازمہ کی تلاش کے دوران گڑ بڑ مچائی تھی کیونکہ جس ملازمہ کی وہ تلاش کررہے تھے وہ چوبیس گھنٹے سے لاپتہ تھی‘ اب جو لوگ ہجوم میں شامل تھے ان کا غصہ خوف میں تبدیل ہوگیا ہے۔لاپتہ خاتون زہرہ بی بی چہارشنبہ کے روز کامپلکس کے ایل فلاٹ سے برآمد ہوئی اور پولیس کو نظم ونسق پر قابو پانے کے لئے موقع پر طلب کرلیاگیاتھا۔ زہرہ بی بی کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور انہیں بقایہ جات کی ادائی کے متعلق مسلئے پر اس کے مالک نے قیدی بناکر رکھا تھا۔مالک نے اس بات سے انکار کردیا۔


ہجوم جو دیگر مقامات سے یہاں پر ائے مرد وخواتین ملازمین پر مشتمل تھاجو سیکٹر78کے اطراف اکناف کے سلم بستیوں میں رہتے ہیں‘ او ریہ علاقہ دہلی سے 23کیلومیٹر کے فاصلہ پر قائم کیا‘ جہاں پر لوگ عیش وآرام کی زندگی گذارتے ہیں۔چہارشنبہ کی آدھی رات کے بعد اترپردیش پولیس حرکت میںآتے ہوئے ان سلم بسیتوں میں اترتی ہے‘ او ریہاں پر رہنے والے خاندانوں سے مردوں کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے۔اسی بستی کے جہاں پر زہرہ بی بی رہتی ہے سے تعلق رکھنے والے مائیگرنٹ ورکر زینل نے کہاکہ’’ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی ایسا پولیس ایکشن نہیں دیکھا‘‘۔جمعرات کے روز ختم ہونے تک کم سے کم تیرہ لوگوں کو عمارت میں تشددبرپا کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیاگیااور لاتعداد لوگوں کو محروس رکھا گیا۔پولیس افیسر نے اپنی پہچان نہ بتانے کے بھروسے کے بعد کہاکہ کامپلکس میں پیش ائے تشدد کے واقعہ میں چار مقدمہ درج کئے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ تمام گرفتار شدگان سلم علاقے کے مکین ہیں۔ زہرہ بی بی جہاں پر کام کرتی ہے وہاں کے مالک پر کسی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی جوکہ مرچنٹ نیوی انجینئر اور اس کی بیوی ہیں جن کے خلاف پہلی ایف ائی آر چہارشنبہ کے رو ز درج کی گئی ہے۔

Exif_JPEG_420

گرفتار اور محروس
تقریبا 1بجے کے قریب کم سے کم تیس لوگ عابدی کی طرح پولیس اسٹیشن کی قطار میں کھڑے ہوئے تھے۔ یہ تمام لوگ یو پی مارکٹ ہاوز سوسائٹی سیکٹر78میں گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرتے ہیں۔ زہرہ بی بی کی طرح یہ بھی سلم علاقے میں ہی رہتے ہیں۔ یہ لوگ یہاں پر اس لئے جمع ہوئے تھے کہ وہ اپنے محروس گھر والوں کو پولیس سے چھوڑا کر لے جاسکیں۔ عابدہ بی بی اور ان کے شوہر دوسال قبل مغربی بنگال کے اپنے گاؤں جاچکتے تھے۔ وہ سال 2015سے نوائیڈا میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کررہی تھی۔ وہ مہاگن ماڈران ہاوز نگ سوسائٹی میں کام نہیں کررہی تھی‘ مگر پڑوسی کے تین سوسائٹیوں کے فلائٹس میں برسر خدمت ہیں۔وہیں پر عابدہ کو نہیں معلوم تھا کہ پولیس ان کے شوہر کو کہاں پر لے گئی ہے‘ اسی طرح قطار میں ان کے عقب میں کھڑا فرد بھی انجان ہی تھا۔ حسنہ بانو کے شوہر اور ان کے دوبھائی جلیل اور عبد دولال کو بھی پولیس نے اٹھالیاتھا۔مہاگن ماڈرن سوسائٹی کے باہر ہوئے تشدد کی وجہہ سے سوشیل میڈیا پر بات جنگل کی آگ کی طرح وائرل ہوگئی کہ گھریلو کام کاج کرنے والوں نے تشدد برپا کیاجس میں ’’ غیر قانونی بنگلہ دیشی پناہ گزین ‘‘ شامل ہیں۔یہ ممکن ہے کیونکہ ان میں زیادہ تر کا تعلق مغربی بنگال کے ضلع کوچ بہار‘ مالدہ‘ جال پیگوری‘ اور آسام سے ہے۔جس طرح عورتیں گھریلو ملازمہ کاکام کرتی ہیں اسی طرح مرد دہلی سے منسلک سٹیلائٹ ٹاؤن شب میں یومیہ اجرت پر مزدوری کا کام انجام دیتے ہیں۔ان پر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام مطلب جو اس علاقے میں صدیوں سے مقیم ہیں انہیں اپنی شناخت پیش کرنے کی ضرورت ہے۔نوائیڈا میں تقریبا بارہ سال سے گھریلوملازمہ کاکام کررہی روپالی بی بی نے کہاکہ ’’ میری زندگی میں کبھی بھی وہ لوگ میں جہاں پر کام کرتی ہوں مجھے بنگلہ دیشی نہیں پکارا مذاق میں بھی نہیں‘‘۔ قریب میں کھڑے دوسرے ورکرس نے بھی اس بات کی تصدیق میں اپنے سر کو ہلایا۔انہو ں نے مزیدکہاکہ’’ ہمارے ساتھ ہوئی اچانک کاروائی کے متعلق میں تصور بھی نہیں کرسکتی‘‘۔

Exif_JPEG_420

ادھی رات کو دروازہ پر کھٹکا
سیکٹر 49پولیس اسٹیشن کے داخلہ پر مذکورہ سنتری نے ایک عورت جسکی عمر بیس سال کے قریب ہے چلاتے ہوئے ’’ ایک وقت میں ایک فرد ہی‘‘۔ اب نرزینہ بی بی کی باری تھی۔ وہ دوڑتی ہوئی اندر گئی اور اسی طرح باہر بھی اگئی۔ وہ صحن میں دھڑام سے گری۔ وہ لوگ جو اس کی مدد میں اس کے اطراف جمع ہوگئے تھے ‘ ان سے نرزینہ بی بی نے کہاکہ پولیس نے انہیں بتایا ہے کہ اس مخصوص پولیس اسٹیشن میں محروس قیدیوں میں ان کے شوہر نہیں ہیں۔انہوں نے کہاکہ ’’جب میں نے ان سے پوچھا وہ کہاں ہیں‘ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اورصرف اتنا کہاکہ ان کے واپس آنے تک انتظار کریں‘‘۔ جب میں نے ان سے پوچھا وہ کب واپس ائیں گے تو انہوں نے کچھ نہیں کیا۔


ادھی رات کا کھٹکا بڑا سخت تھا۔کوچی بہار کی ساکن نازیمہ بی بی جس کے شوہر کو بھی پولیس نے حراست میں لے لیا نے کہاکہ ’’ تقریبا بارہ بجے رات کا وقت تھا‘ اور ہم سونے کی غرض سے بستر پر لیٹے ہی تھی کہ کسی نے زور سے دروازے پر دستک دی ہمیں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ دروازہ ہی توڑ دیں گے۔ وہ پولیس تھی۔ انہوں نے میرے شوہر کو باہر طلب کیا اور شناختی کارڈ دیکھانی کو کہا۔ مگر وہ گھر واپس نہیں ائے‘‘۔ زینل جو مائیگرنٹ کنسٹرکشن ورکر جو دور تھا ۔ انہوں نے کہاکہ پولیس نے اس طرح کی حکمت عملی چہارشنبہ کے روز سلم علاقوں میں کئے گئے دھاؤں کے وقت اپنائی۔ زینل نے کہاکہ ’’ایک بار جب کوئی شخص دستاویزات کے ساتھ گھر کے باہر نکلتا ہے تو پولیس اس کو گاڑی میں بیٹھنے کے لئے کہہ دیتی ہے۔ اور جو تلاشی کی قطار میں آخر میں تھے وہ فرار ہونے میں کامیاب رہے‘‘۔ جبکہ نازیمہ بی بی کی سلم بستی سے اٹھ ‘ اور تقریبا چودہ لوگوں کو زینل اور زہرہ بی بی کی سلم بستی سے حراست میں لیاگیا ہے۔جمعرات کے روز زہرہ بی بی کا بمبوسے بنی جھونپڑی میں ٹن کا دروازہ مقفل تھا۔پڑوسیوں نے کہاکہ ان کا شوہر عبدالستار‘ بیوی او رتین بچوں کو چھوڑ کر آدھی رات کو پیش ائے دھاوے کے بعد سے فرار ہے۔پڑوسیوں نے بتایا کہ ان کے تیرہ سالہ بچے کو بھی پولیس نے اٹھالیا ہے۔انہو ں نے مزیدکہاکہ پولیس زہرہ بی بی کو ان کے دوچھوٹے بچوں کے ہمراہ طبی جانچ کے لئے جمعرات کی صبح کو لے کر گئی تھی۔ اور وہ رات تک گھر واپس نہیں لوٹی۔ معاملے کی جانکاری کے لئے پولیس افسروں بشمول سپریڈنٹ آف پولیس ( نوائیڈ ا سٹی) سے ملاقات کی کوشش کی گئی۔ تاہم ان لوگوں نے ناتو فون اٹھایا اور نہ ہی کوئی جوابی پیغام دیا‘ عملے کا کہنا ہے پولیس کے افسران انسپکٹر جنرل آف پولیس کے ساتھ اجلاس میں ہیں۔
ملازمت کی فکر


جمعرات کی صبح برہم گھریلو ملازمین کو ایک روز قبل کا وہ منظر جس میں ان کے ساتھی کے ساتھ ایک گھر والے نے کیاسلوک کیاتھا یاد کرنے کے بعد ان کا غصہ خوف میں تبدیل ہوگیا۔زینل نے کہاکہ’’ سلم علاقوں کے مکین جنھوں نے سارے واقعہ میں احتجاج کیا اور یہ ں تک کہ مہاگن کے سیکورٹی گارڈ س سے بھی بھڑنے کے لئے وہ تیا رہوگئے تھے اور ان کے ساتھ بدسلوکی بھیکی آج موت کے لئے ڈرے ہوئے ہیں‘‘۔چہارشنبہ کے روز ورکرس نے اس کرسپانڈنٹ سے کہاکہ وہ زہرہ بی بی کے ساتھ اظہار یگانگت میں مہاگن ماڈرن سوسائٹی کے باہر احتجاج میں شامل تھے۔انہیں خوف تھا کہ کل کے دن اس طرح کا کوئی واقعہ ان کے ساتھ بھی پیش نہ ائے۔ وہ آج اپنے کام کو لیکر کافی فکر مند ہیں۔صرف ایک مہاگن ماڈرن سوسائٹی میں چھ سو لوگ گھریلو کام کاج کرتے ہیں۔ چہارشنبہ کے روز پیش ائے واقعہ کے بعد سوسائٹی نے اعلان گھریلو ملازمین کے سوسائٹی میں داخل پر پابندی عائد کردی ہے۔اس میں کچھ ملازمین دیگر کامپلکس میں بھی کام کرتے ہیں مگر اکثریت کی وابستگی مہاگن سوسائٹی سے ہی ہے۔حسینہ بی بی ان سے ایک ہے جو کامپلکس کے تین گھروں میں کام کرتے ہیں‘ اور ماہانہ بارہ ہزار کماتی ہیں۔ وہ بے روزگاری اور بے گھر ہونے کے خدشات سے گھبرائی ہوئی ہیں۔انہوں نے کہاکہ’’پولیس کے دھاؤں کے بعد میں اور میرے شوہر اس سلم علاقے سے بھاگ کھڑے ہوئے‘‘۔ وہ واپس جانے کے لئے خوفزدہ ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم فی الحال ہمارے ایک رشتہ دار کے یہا ں رکے ہوئے ہیں ۔ بعد میں ہمیں پتہ چلاک ہمارے سلم بستی سے چھ لوگوں کو حراست میں لے لیاگیا ہے۔ دوسرے سوسائٹی کے لوگ انہیں دوبارہ کام پر رجوع ہونے کے لئے طلب کررہے ہیں۔ مغربی بنگال کے مرشد آباد میں واقع فاراککا سے یہاں پر آکر کام کرنے والے پرول جوگی نے کہاکہ ’’ مجھے آج صبح میں جہاں پر کام کرتا ہوں وہا ں کی پڑوسی سوسائٹی کے ایک شخص کا فون آیا‘ وہ مجھے کام پر آنے کے لئے کہہ رہے ہیں‘‘۔ وہ تین علیحدہ سوسائٹیوں میں کام کرتی ہیں جس میں مہاگن بھی شامل ہے۔میں وہاں نہیں جاونگی کیونکہ میرے شوہر پولیس اسٹیشن میں ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ ان حالات سے ہمیں کب تک گذرنا ہے‘‘۔