سپریم کورٹ نے ریاست کی حکومتوں سے کہاتھاکہ وہ ہر ضلع ایک نوڈل افیسر کا تقرر عمل میں لائیں‘ او رپچھلے پانچ سالوں میں ہجومی تشدد اور ہجوم کے ہاتھوں پیش ائے قتل کے واقعات کے متعلق انٹلیجنس رپورٹ اور ایسے اضلاعوں کی نشاندہی کریں۔
نوائیڈا۔جب سے سپریم کورٹ نے جولائی 17کو ہدایت جاری کرتے ہوئے ریاستوں کے انتظامیہ سے ہجومی شدد کے واقعات پھٹکار لگائی تھی‘ مذکورہ اترپردیش پولیس نے میرٹھ علاقے میں مبینہ گاؤ تسکری سے وابستہ 54لوگوں کو حراست میں لیا ہے‘ جس کے دائرے میں بلند شہر بھی آتا ہے۔
تاہم گاؤ رکشہ کے نا م پر ہونے والے تشدد کے واقعات میں گرفتاریاں صفر ہیں۔سپریم کورٹ نے ریاست کی حکومتوں سے کہاتھاکہ وہ ہر ضلع ایک نوڈل افیسر کا تقرر عمل میں لائیں‘ او رپچھلے پانچ سالوں میں ہجومی تشدد اور ہجوم کے ہاتھوں پیش ائے قتل کے واقعات کے متعلق انٹلیجنس رپورٹ اور ایسے اضلاعوں کی نشاندہی کریں۔نوڈل افیسر ایس رینک سے کم بھی نہیں ہونا چاہئے۔
میرٹھ رینج کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل پرشانت کمار نے انڈین ایکسپریس سے کہاکہ ’’ سپریم کورٹ کے احکامات میں ہم نے ایڈیشنل ایس پی رینک کے افیسر کو نوڈ ل افیسر مقرر کیاہے۔ یہاں پر ہماری ٹیم کے طور پر پولیس نے بہترین کام انجام دیتے ہوئے چالیس گاؤتسکری کے واقعات پر قابو پایا ہے۔
ان واقعات میں میوشیوں کی تسکری کرنے والے اکیس لوگ بھی زخمی ہوئے ہیں‘‘۔ اے ڈی جی نے یہ بھی کہاکہ پچھلے پانچ ماہ میں قومی سکیورٹی ایکٹ کے تحت نو مقدمات درج کئے گئے ہیں‘ جس میں اٹھ مبینہ گاؤ تسکر ہیں۔
پولیس نے کہاہے کہ اب تک کسی بھی گاؤ رکشک کی سابقہ واقعات میں گرفتاری عمل میں نہیں ائی ہے اور میویشیوں کی تسکری کے واقعات کو روکنے کے بعد گائے کے نام پر تشدد کے واقعات پر قابو پانے کاکام کیاجائے گا‘‘۔
کمار نے کہاکہ’’ سیانہ کے واقعہ میں حالات پرقابو پانے کے لئے تین گھنٹوں تک کا وقت لگا اس کے لئے پولیس کی بھاری جمعیت اجتماع کے لئے متعین کی گئی تھی ‘ جہاں پر دس لاکھ لوگ جمع ہوئے تھے‘‘۔
کرائم برانچ کے ایک افیسر جو سیانہ میں ہجوم پر قابو پانے کے لئے پہنچے تھے کا کہنا ہے کہ سابق میں اس علاقے میں ہجومی تشدد کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیاتھا جس کی وجہہ سے توقع نہیں تھا کہ اس قدر بڑے پیمانے پر وہاں تشدد رونما ہوگا۔کرائم برانچ کے افیسر وں کا کہنا ہے کہ نگرانی کے دوران ہونے والے تشدد’’غیر منصوبہ بند ‘‘ ہیں ‘ کیونکہ سابق میں پولیس موقع پر ہمیشہ وقت سے پہنچتے ہیں جہاں پر گاؤ کشی کا مسئلہ اٹھایاجاتا ہے‘‘۔
کرائم برانچ کے ایک افیسر نے کہاکہ’’ مقصد گاؤ رکشہ کے مسلئے کو نظم ونسق میں رکاوٹ بننے سے روکنا ہے۔ لہذا جب کوئی مردہ جانور ملتا ہے تو تنظیموں کے وہاں پہنچنے سے قبل پولیس موقع پر پہنچنے کاکام کرتی ہے‘‘۔
عام طور پر مردہ جانور کو اپنی تحویل میں لے کر پولیس فارنسک لیب روانہ کرتی ہے اور ملزمین کے خلاف کڑی کاروائی کی جاتی ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے احکامات میں اس بات کی بھی ہدایت جاری کی ہے کہ’’ مرکزی او رریاستی حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سوشیل میڈیا کے ذریعہ بھڑکاؤ ویڈیو ز ‘ مسیج اور فوٹوز پھیلائے جانے والے واقعات پر بھی کنٹرول کرے‘‘ ۔
اس پر عمل کرتے یوئے یوپی ڈی جی او پی سنگھ نے 15جولائی کے روز ایک نوٹس افسروں کا جاری کیا جس میں لکھاہے کہ’’یوپی پولیس نے پہلے ہی ایک ٹوئٹر اکاونٹ تشکیل دیا ہے جس کے ذریعہ فرضی وائیر ل ٹوئٹس پرنظر رکھی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی اہم ہے کہ واٹس ایپ پر بھی نظر رکھی جائے کیونکہ ملک بھر میں کروڑ ہا لوگ وائس ایپ کا استعمال کرتے ہیں‘‘۔
یوپی پولیس نے ڈیجیٹل والینٹر کے طرز پر پولیس اسٹیشن کے سطح پر واٹس گروپس تشکیل دئے ہیں جو250ممبران پر مشتمل ہے ‘ جس میں اسکول انتظامیہ ‘ صحافی‘ مقامی این جی او ورکرس‘ اسٹوڈنٹ لیڈرس‘ ڈاکٹرس وکلا اور اہم تاجرین کو شامل کیاگیاہے۔
سیانہ کے نئے ایس ایچ او کرن پال سنگھ نے انڈین ایکسپرس کو بتایا کہ’’ ہم بھی واٹس ایپ گروپ چلارہے ہیں مگر صاف جرائم کے متعلق جانکاری اور اس کے کام کے سلسلے میں بات کی جاتی ہے اس کے علاوہ ممبرس کے مسلئے بھی اس میں شیئر کررہے ہیں۔ میں اب بھی اس گروپ میں شامل نہیں ہوا ہوں‘‘۔