استنبول ۔ 3 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) شام کے کمسن پناہ گزین لڑکوں5 سالہ غالب اور 3 سالہ ایلان کردی کی ترکی کے ساحل پر دستیاب نعشوں کے بعد دنیا بھر میں غم و اندوہ کا ماحول پایا جاتا ہے اور ان بچوں کے والد نے انتہائی افسردگی سے بتایا کہ اس نے اسمگلرس کو 2 ہزار ڈالر سے زائد کی رقم ادا کی تھی۔ عبداللہ کردی کا تعلق شام کے ٹاؤن کوبانی سے ہے جو ترکی سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس نے بتایا کہ 15 فٹ کی یہ کشتی 5 فٹ بلند موجوں کی زد میں آ گئی اور اس کی بیوی بھی غرقاب ہوگئی۔اس نے کشتی میں پیش آئے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پہلے کشتی میں پانی جمع ہوگیا اور لوگ پریشان تھے ۔ اس نے اپنے دونوں بچوں کو اچھی طرح پکڑ رکھا تھا لیکن اچانک میرے ہاتھ سے پھسل کر پانی میں گرپڑے ۔ میری نظروں کے سامنے وہ کافی دور چلے گئے اور میں بے بس تھا ۔ لوگ اس وقت چیخ و پکار کررہے تھے اور میں اپنے بچوں اور بیوی کی آواز کو سن نہیں پایا ۔ یہ تینوں بھی سمندر کی نذر ہوگئے ۔ اس نے بتایا کہ بچوں اور بیوی کو بچانے کی کافی کوشش کی گئی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سب پانی میں غرق ہوچکے تھے۔ کردی نے بتایا کہ ان کے خاندان نے کافی عرصہ پہلے کینیڈا میں پناہ گزین کیلئے درخواست داخل کی تھی اور مقامی عہدیداروں نے ٹیلیفون انٹرویو کا بھی انتظام کیا تھا۔ ایلان کی نعش ترکی کے ساحل پر دستیاب ہوئی تھی اور جو تصاویر سوشل میڈیا پر دکھائی گئی اس میں ایلان کی نعش منہ کے بل پانی میں تیر رہی ہے۔ اس کی قابل رحم حالت سے نقل مقام کرنے والوں کے مسائل اور پریشانیوں کا اظہار ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں جنگ زدہ ممالک سے نقل مقام کرنے والوں کے مسائل اور ان کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے بارے میں بین الاقوامی برادری کی خاموشی پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔