٭ انتخابات سے قبل کھلا اتحاد پارٹی کے حق میں نہ ہونے کا عذر
٭ بی جے پی کی 5 اسمبلی نشستوں پر کمزور امیدوار نامزد کرنے کا اشارہ
٭ دیگر جماعتوں کو این ڈی اے کے ساتھ ملانے کی مساعی
٭ کے سی آر ۔ مودی ملاقات میں مابعد انتخابات مفاہمت پر تبادلہ خیال
حیدرآباد 5 اگسٹ ( سیاست ڈاٹ کام ) ریاست میں برس اقتدار تلنگانہ راشٹرا سمیتی اور مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کے مابین ایسا لگتا ہے کہ قربتیں بڑھنے لگی ہیں۔ ہفتہ کو دہلی میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی وزیر اعظم نریندرمودی سے ہوئی ملاقات کے موقع پر معلوم ہوا ہے کہ دونوں نے آئندہ عام انتخابات کے بعد کی امکانی مفاہمت کے تعلق سے تبادلہ خیال کیا ہے ۔ ٹی آر ایس کے اعلی ذرائع نے بتایا کہ اگر آئندہ عام انتخابات کے بعد این ڈی اے کو عددی طاقت درکار ہوتی ہے تو ٹی آر ایس اس سے اتحاد کرسکتی ہے ۔ ذرائع نے اشارہ دیا ہے کہ چندر شیکھر راؤ اور نریندر مودی کی ایک گھنہ طویل ملاقات کے دوران 2019 کے اہمیت کے حامل انتخابات کے تعلق سے تبادلہ خیال کیا گیا ۔ سمجھا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے ٹی آر ایس سے امکانی تائید کی خواہش کی ہے جس پر کے سی آر نے کہا کہ یہ ان کی پارٹی کے مفاد میں نہیں ہوگا کہ بی جے پی کے ساتھ کھلے عام اتحاد کرے ۔ کے سی آر نے سمجھا جاتا ہے کہ وزیر اعظم پر یہ واضح کردیا کہ ان کی پارٹی 2019 کے انتخابات کے بعد بی جے پی کی تائید کرسکتی ہے اگر این ڈی اے کو حکومت کی تشکیل کیلئے اس کی تائید کی ضرورت آن پڑے ۔ ٹی آر ایس کا تلنگانہ میں موقف مستحکم بتایا جاتا ہے اور یہاں اس کی اصل اپوزیشن کانگریس ہی ہے۔ ٹی آر ایس حالانکہ این ڈی اے کا حصہ نہیں ہے لیکن دو ہفتے قبل لوک سبھا میں تلگودیشم کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر اس نے رائے دہی سے غیر حاضری اختیار کی تھی ۔ ٹی آر ایس علاقائی جماعتوں میں وہ اولین جماعت تھی جس نے این ڈی اے کے صدارتی امیدوار کی تائید کی تھی اور اس نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نوٹ بندی کے فیصلے کی بھی تائید کی تھی ۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش و صدر تلگودیشم این چندرا بابو نائیڈو کی جانب سے این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرلینے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کا زیادہ جھکاؤ ٹی آر ایس کی سمت ہوگیا ہے ۔ مودی نے پارلیمنٹ میں خود بھی تلگودیشم کے تعلق سے ریمارک کرتے ہوئے تلنگانہ میں برسر اقتدار جماعت کی ستائش کی تھی ۔ کے سی آر نے 15 جون کو دہلی کا دورہ کرکے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی تھی اور اندرون 50 دن وزیر اعظم سے ان کی دوسری ملاقات یہ ظاہر کرتی ہے کہ نریندرمودی کیلئے کے سی آر کتنے اہم بنتے جا رہے ہیں ۔حالانکہ اس اہمیت کو عملا ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ کے سی آر نے مرکز سے جتنے بھی اہم مطالبات کئے ہیں ابھی تک ان کی تکمیل نہیں ہوئی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت کے ایک سینئر وزیر کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ان مطالبات کو مرکز سے رجوع کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔ اگر مرکز ہمیں وہ کچھ دیتا ہے جو ہم چاہتے ہیں تو یہ تلنگانہ کیلئے فائدہ کی بات ہوگی ۔ اگر ایسا نہیںہوتا ہے تو ہم جانتے ہیں کہ اس کیلئے کس کو ذمہ دار قرار دینا چاہئے ۔ بی جے پی کی یہ خواہش ہے کہ ٹی آر ایس آئندہ انتخابات میں اسمبلی اور لوک سبھا کی کچھ نشستوں پر بی جے پی کیئے جگہ بنائے تاہم کے سی آر نے یہ واضح کردیا ہے کہ تلنگانہ میں بی جے پی کے پاس کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت والے امیدوار نہیں ہیں۔ ٹی آر ایس اس بات کی مخالف نہیں ہے کہ بی جے پی کو اس کی پانچ موجودہ نشستوں پر دوبارہ قبضہ کا موقع دیا جائے ۔ ان حلقوں میں ٹی آر ایس طاقتور امیدوار نامزد نہیںکریگی ۔ سمجھا جاتا ہے کہ مودی نے کے سی آر سے کہا ہے کہ وہ وفاقی محاذ کے مسئلہ پر تیزی نہ دکھائیں تاہم کے سی آر کچھ ریاستوں میں دیگر جماعتوں سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں گے تاکہ انتخابات کے بعد ضرورت پڑنے پر وہ ان جماعتوں کو این ڈی اے کے حق میں راغب کرسکیں۔