جن اسمبلی حلقوں میں انہوں نے ریلیاں کیں ان میں سے کم وبیش ساٹھ فیصد سیٹیں اپوزیشن کے حصہ میں ائیں‘ عوام نے نہ صرف بی جے پیکے اس بھگوا مکھوٹے کو مستردکیابلکہ یہ واضح پیغام بھی دیا ہے کہ ہندوتوا کو انتخابی موضوع بناکر الیکشن جیتنا اب اتنا آسان نہیں۔
نئی دہلی۔ چار ماہ بعد منعقد ہونے والے اگلے لوک سبھا الیکشن 2019سے قبل پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران جس شدت کے ساتھ بی جے پی نے ہندوتوا کو سیاسی موضوع بنانے کی کوشش کی وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔
بابری مسجد رام مندر تنازع کو جس شدت سے ابھارا گیا اور ایک کے بععد دیگر دھرم سبھاؤں کے انعقاد کے ذریعہ ماحول کو جس طرح فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی نیز وزیراعظم نریندر مودی کے بعد اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کو جس طرح اسٹار کیمپینر کے طور پر میدان میں اتارا گیا وہ اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
مقصد صاف تھا کہ ملک کے اکثریتی طبقہ کے مذہبی جذبات کو ابھارکر انہیں بی جے پی کے حق میں ووٹنگ کے لئے آمادہ کیاجائے مگر ہندی بیلٹ کی تینوں بڑی ریاستوں راجستھان‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ نے اسے سختی سے خارج کردیا ہے۔
انتخابی نتائج کے حوالے سے جو باتیں سامنے آرہی ہیں ان میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جن اسمبلی حلقوں میںیوگی ادتیہ ناتھ نے ریلیاں کیں وہاں بی جے پو کی بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔
اس سے قبل کرناٹک اسمبلی انتخابات کے دوران یوگی آدتیہ ناتھ کو اسٹار کیمپینر کے طور پر میدان میں اتارا گیا تھا مگر بی جے پی وہاں بھی کانگریس ک اقتدار سے بیدخل نہیں کرسکی۔
یوگی ادتیہ ناتھ نے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران چار ریاستوں میں 74ریلیوں سے خطاب کیا۔چھبیس ریلیاں راجستھان میں ‘چھتیس گڑھ میں23‘ مدھیہ پردیش میں 17اور تلنگانہ میں اٹھ ریالیاں ہوئیں۔
چاروں ہی مقامات پر انہو ں نے جس زبان کا استعما ل کیا وہ اپوزیشن ہی نہیں بلکہ ملک کے انصاف پسند حلقوں کی جانب سے بھی شدید کا تنقید کا نشانہ بنی۔ انتخابات کے دوران رام مندر کے موضوع پر سپریم کورٹ کو بھی نشانہ بنایاگیا۔