سوشیل میڈیا پر تصاویر، پولیس کے متضاد بیانات، موبائیل سے پلوامہ میں موجودگی کا پتہ چلنے کا ادعاء
نوائیڈا 3 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) ایک کشمیری نوجوان کے اترپردیش کی ایک یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے کے کئی دن بعد سوشیل میڈیا پر بظاہر اس کی تصویر دیکھی گئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ وادی میں عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوگیا ہے۔ وسطی سرینگر کا ساکن 17 سالہ احتشام بلال صوفی گریٹر نوائیڈا کی شاردا یونیورسٹی میں گریجویشن سال اول کا طالب علم تھا۔ وہ دہلی روانگی کے لئے باضابطہ یونیورسٹی سے اجازت حاصل کرنے کے بعد 28 اکٹوبر سے لاپتہ ہے۔ اس سے چند دن قبل اس یونیورسٹی کے کیمپس میں ہندوستانی اور افغانی طلبہ کے درمیان جھگڑے میں اس کو غلطی سے دبوچ لیا گیا تھا۔ گریٹر نوائیڈا کے نالج پارک پولیس اسٹیشن کے علاوہ سرینگر کے خانیار پولیس اسٹیشن میں بھی اس کی گمشدگی کی شکایت درج کی گئی ہے۔ تاہم اب سوشیل میڈیا پر زیرگشت تصاویر میں احتشام صوفی کو تنظیم کا سیاہ لباس پہنا ہوا دیکھا گیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ ایک عسکریت پسند تنظیم آئی ایس جے کے میں شامل ہوگیا ہے۔ یہ تنظیم خوفناک جہادی تنظیم آئی ایس آئی ایس کے نظریات سے متاثر ہے۔ اترپردیش کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے کہاکہ 28 اکتوبر سے اس کیس کی تحقیقات کی جارہی ہیں اور سوشیل میڈیا پر گشت کرنے والی تصاویر کا نوٹ لیا گیا ہے۔ یو پی کے اے ٹی ایس سربراہ اسیم ارون نے پی ٹی آئی سے کہاکہ ’’ہم جموں و کشمیر پولیس سے رابطہ میں ہیں۔ ہم اس لڑکے کی گریٹر نوائیڈا سے کشمیر تک روانگی کے راستوں اور ذرائع کا جائزہ لے رہے ہیں‘‘۔ جموں و کشمیر پولیس نے کہاکہ وادی میں صوفی کی موجودگی کا پتہ چلایا جارہا ہے۔ گوتم بدھ نگر پولیس نے صوفی کے موبائیل فون کا آخری مرتبہ جنوبی کشمیر کے عسکریت پسندی سے متاثر ضلع پلوامہ میں موجودگی کا پتہ چلایا تھا اور کہا ہے کہ مزید تحقیقات جاری ہیں۔ ایک سینئر پولیس عہدیدار نے کہاکہ ’گمشدگی کا ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے اور پولیس ٹیمیں اس کیس کی تحقیقات کررہی ہیں‘۔ یوپی پولیس کے مطابق صوفی 28 اکتوبر کی دوپہر دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ سے سرینگر روانہ ہوا تھا جہاں سے چند گھنٹوں بعد پلوامہ پہونچ چکا تھا۔ اُنھوں نے کہاکہ صوفی کے موبائیل فون کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 28 اکتوبر کو 4.30 بجے شام پلوامہ سے اس نے آخری مرتبہ اپنے والد سے بات چیت کی تھی جو سرینگر میں رہتے ہیں۔ تاہم صوفی نے اپنے والد سے کہا تھا کہ وہ ہنوز دہلی میں ہے اور میٹرو کے ذریعہ یونیورسٹی واپس ہورہا ہے۔