یوپی کے عظیم اتحاد میں کانگریس پر سوال

اگلہ سال ہونے والے عام انتخابات کو لے کر جو سب سے بڑا سوال ابھی تک جواب سے محروم ہے وہ یہ ہے کہ 80لوک سبھا سیٹوں والی یوپی میں بی جے پی کے خلاف عظیم اتحاد کی شکل کیاہوگی؟۔ایس پی او ربی ایس پی کے درمیان بڑھتا تال میل اتحاد کی شکل اختیار کرپائے گا یا نہیں؟۔

یوپی میں ایس پی ‘ بی ایس پی کانریس کے ساتھ جس طرح کے دوری بناکر چل رہی ہے اس کے مدنظر دونوں کے اتحاد میں کانگریس کے لئے بہت کم جگہ بنتی دیکھ رہی ہے۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے نتائج کے بعد حکومت بنانے میں ایس پی او ربی ایس پی نے کانگریس کے تئیں جس طرح کا سلوک کیاہے ۔

اس وجہہ ان تینوں کے تعلقات کو توقعات ملی تھی۔ لیکن دونوں دلوں کی طرف سے یہ صاف کردیاگیاہے راجستھان او رمدھیہ پردیش کے حالات کو یوپی سے ملاکر دیکھنا غیر مناسب ہے۔

اس لئے عظیم اتحاد کو لے کر بات جہاں رکی ہوئی تھی وہیں پھر ٹہری ہوئی دیکھائی دے رہی ہے۔ہا ں یہ ضرور ہے کہ ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان اتحاد کو ائے دن توقعات ملتی دیکھائی دے رہی ہے۔

ایس پی اور بی ایس پی دونوں کے اندر یوپی میں کانگریس کو لے کر بہت زیادہ جذبات دیکھائی نہ دینے کی وجہہ صاف ہے۔ ان دونو ں پارٹیوں کو اس بات سے ڈر ہے کہ کانگریس کو ساتھ لینے سے بی جے پی کو فائدہ ہوسکتا ہے۔کانگریس او ردیہی اور شہری سیٹوں پرجو بھی ووٹ ملتے ہیں ‘ اس کا بڑا حصہ اعلی طبقے سے آتاہے

کانگریس کو ایس پی بی ایس پی ساتھ ہونے پر یہ ووٹ بینک نے تو کانگریس کے حمایت میںآتا ہے او رنہ ہی ایس پی بی ایس پی امیدواروں کو منتقل ہوتا ہے بلکہ یہہ بی جے پی کے ساتھ چلا جاتا ہے۔

اس بات کے مطابق کا اندازہ 1996میں کانگریس کے ساتھ الیکشن لڑکربی ایس پی کو ہوگیا ہے اور2017میں ایس پی کو بھی ہوگیاہے۔ یہی وجہہ رہی کہ2017میں یوپی ہار جانے کے بعد ایس پی چیف اکھیلیش یادو کے من میں کانگریس کو لے کر کوئی انسیت نہیں رہ گئی۔

گورکھپور او رپھلپھور لوک سبھا سیٹوں پر ضمنی انتخابات میں جب کانگریس ایس کی حمایت میں کے لئے اپنا امیدوار ہٹانے کے لئے بے چین ہورہے تھے‘ تب اکھیلیش یادو نے نہ صرف حمایت لینے سے انکار کردیا تھا بلکہ مقامی کانگریس امیدواروں کو مضبوطی کے ساتھ الیکشن لڑتے رہنے کے لئے اپنی جانب سے ہرممکن مدد باہم بھی پہنچائی کیونکہ اکھیلیش یادو کو لگ رہا تھا تھا کہ اعلی ذات کے لوگوں کے ووٹ اگر کانگریس کاٹنے میں کامیاب ہوتی ہے تو بی جے پی کو اس کانقصان اور انہیں فائدہ ہوگا۔اور ویسا ہی ہوا تھا۔

ان دنوں سیٹوں پر ایس پی نے بی ایس پی کو حمایت دی تھی او رجیت کے بعد بی ایس پی چیف کے کا شکریہ ادا کرنے کے لئے ان کے گھر بھی گئے تھے۔

یوپی میں2012کا الیکشن ایس پی اورکانگریس نے علیحدہ لڑا تھا۔ جن سیٹو ں پر کانگریس نے پانچ ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کرلئے تھے‘ ان میں سے زیادہ تر سیٹوں پر ایس پی کو جیت مل گئی تھی۔

ایس پی کی جیت 224سیٹوں تک پہنچ گئی تھی جو کہ اب روکی ہوئی ہے۔

وہیں 2017میں اب ایس پی اور کانگریس مل کر لڑلے تو کانگریس اپنے روایتی اعلی ذات ووٹ نہ تو اپنی طرف لے سکی اور نہ ہی ایس پی کو منتقل کرپائی۔

اس کے نتیجے میں ایس پی نہ صرف اقتدار سے بیدخل ہوئی بلکہ وہ 224سے سمٹ کر 47پر آکر رک گئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یوپی میں ایس پی ‘ بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کو لے کر کانگریس میں بھی دو رائے ہے۔

جن لیڈران کو یوپی سے الیکشن لڑانا ہے وہ کسی بھی قیمت پر ایس پی اور بی ایس پی سے اتحاد کی حمایت میں ہیں۔ کیونکہ انہیں ان دو پارٹیوں سے دلت ‘ مسلم ‘ یادو ٹ ملنے کی بڑی توقع ہے‘ جس کے ذریعہ ان کی کامیابی کے راستے آسان ہوجاتے ہیں

۔مگر سیاسی مشیروں کا کہنا ہے کہ ایس پی اور بی ایس پی سے الگ ہوکر الیکشن لڑنے میں پارٹی کو کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔

سال2009کے لوک سبھا الیکشن میں اکیلے اپنے دم پر الیکشن لڑکر پارٹی نے 21سیٹوں پر جیت حاصل کرتے ہوئے سب کوچونکا دیاتھا۔

اس جیت کی امید کانگریس کو بھی نہیں تھی۔کانگریس کے کچھ لیڈروں کا ماننا ہے کہ اگر یوپی میں ایس پی او ربی ایس پی کانگریس کو شامل نہ کرکے بھی بڑی جیت درج کراتی ہیں تو آخر کار کانگریس کا ہی فائدہ ملے گا کیونکہ یہ پارٹی کم سے کم بی جے پی کو سرکاری بنانے میں مدد گار ثابت نہیں ہونگیں۔

اس وجہہ سے کانگریس کو ایس پی بی ایس پی کو رخ کو لے کر بہت پریشانی نہیں ہے۔