اگرہ۔کئی مہینوں کی بحث اور کاس گنج میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے باوجود دلت دولہا یہ کہتا رہا ہے کہ دستور نے مجھے اس بات کا حق دیا ہے کہ میں شادی کی برات کسی بھی راستے سے لے جاسکتا ہوں او ربالآخر اس کو کامیابی حاصل بھی ہوئے۔
کچھ رو ز قبل سنجے کمار کی درخواست کو الہ آباد ہائی کورٹ نے نامنظور کرتے ہوئے یوپی پولیس کے پاس بھیج دیاتھا او رکہاتھا اترپردیش کے ضلع کاس گنج کے نظام پور علاقہ جہاں پر اعلی ذات والو ں کی اکثریت پائی جاتی ہے سے برات لے جانے کی راہ ہموار کرے اور اتوار کے روز بالآخر ایک معاہدے طئے ہوا جس میں برات نکالنے کی ایک27سالہ دلت جاتو کو برات نکالنے کی منظور مل گئی جو چاہتا تھا کہ 20اپریل کے روز اپنی شادی کی برات دھوم دھام سے نکالے۔
ایک ایسے وقت میں یہ معاہدہ طئے پایا ہے جب دلت اراکین پارلیمنٹ وزیر اعظم نریند رمودی کو مکتوب لکھ کر ان کے ساتھ او ران کے ساتھ سماج کو یوپی میں درپیش مشکلات کا ذکر کیا اورانتظامیہ کے سینئر عہدیدار اور پولیس مذکورہ نوجوان او راس کے رشتہ داروں کے علاوہ ٹھاکروں کے درمیان میں معاہدے کے متعلق دلالی کررہا ہے۔ کئی مواقع پر تبادلہ خیال کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ سنجے کی برات ان راستوں پر سے جائیگی جہاں پر ٹھاکروں کے گھر ہیں۔
اس معاہدے کے پر دونوں گروپس نے عہدیداروں اور گاؤں کی ممتاز شخصیتوں کے سامنے دستخط کی ۔اگرچہ کہ کچھ خدشات اب بھی قائم ہیں اور شرائط میں کہاگیا ہے کہ کوئی بھی سیاسی لیڈر شادی میں شرکت نہیں کریگا‘ برات میں ہتھیاروں کی نمائش نہیں کی جائے گی اور شراب کااستعمال نہیں ہوگا۔
ساونڈ سسٹم کے ذریعہ قابل اعتراض زبان اور الفاظ کے استعمال نہیں کیاجائے۔ ایسالگ رہا ہے کہ سنجے کی برات کاس گنج اور نظام پور کے چالیس ٹھاکروں اور پانچ جاتو خاندان کے وقار کا معاملہ بن گیاہے۔
مارچ 30کو آلہ آباد ہائی کورٹ نے ٹھاکروں کے علاقے سے بارات لے جانے کے لئے دائر کردہ سنجے کی درخواست نامنظور کردیاتھا ۔مگر سنجے اور اس کی ہونے والی دلہن شیتل اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اونچی ذات والے لوگ گاؤں میں دھمکی دی رہے ہیں کہ دلت نوجوان کی گھوڑی پر برات نہیں نکلنے چاہئے اس گاؤں میں پچاس دلتوں کے گھر ہیں جبکہ تیس سے زائد اعلی ذات والوں کے مکانات ہیں۔