یوپی میں وزیراعظم مودی کی لہر دیکھائی دے رہی ہے ‘ مگر اتحاد سے مشکلات کا سامنا بھی ہے۔

مرادآباد کے کانت ٹاؤن میں ‘ نوجوانوں کا ایک گروپ ایک چھوٹی دوکان پر بیٹھ کر سگریٹ نوشی کررہا ہے۔ رینکو سینی کی یہ دکان ہے ‘ مگر مزاحیہ انداز میں اس نے کہاکہ میرے دوستوں کے لئے ایک ساتھ بیٹھنے کے لئے یہ جگہ کافی ہے۔

یوپی۔مرادآباد کے کانت ٹاؤن میں ‘ نوجوانوں کا ایک گروپ ایک چھوٹی دوکان پر بیٹھ کر سگریٹ نوشی کررہا ہے۔ رینکو سینی کی یہ دکان ہے ‘ مگر مزاحیہ انداز میں اس نے کہاکہ میرے دوستوں کے لئے ایک ساتھ بیٹھنے کے لئے یہ جگہ کافی ہے۔

ان کے مختلف خواب ہیں۔ اونیت بشنوائی دہرادون میں ہوٹل مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کررہا ہے اور کچھ توقف کے لئے گھر واپس لوٹا ہے۔شوبھم چوہان الکٹرسٹی محکمہ میں کام کرتا ہے۔مگر ان کے سیاسی حوالے ایک ہے۔

سیانی نے کہاکہ ’’ نریندر مودی کی بطور ومیراعظم واپسی ہوگی۔ اپوزیشن میں کوئی بھی ان کے مقابلے کا نہیں ہے۔

آپ نے دیکھا کس طرح انہوں نے ہندوستان کی شبہہ کو فروغ دیاہے؟آپ نے دیکھا کس طرح انہو ں نے پاکستان کو سبق سیکھا ؟راہول گاندھی کے پاس ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہے‘‘۔

اس کے دوستوں نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی۔جب ان سے پوچھاگیا کہ نوکریاں کیا ان کا مسئلہ ہے ‘ جس کی بناء پر حکومت کی ملازمت فراہم کرنے کی طریقہ کار کو تنقید کانشانہ بنایاجارہا ہے ‘ بشنوائی نے کہاکہ’’ جی ہاں ہمیں اور ملازمتیں چاہئے۔ پچھلے کچھ سالوں میں سرکاری ملازمتوں کھلی ہیں۔ مگر حکومت ہر کسی کے لئے ملازمت تیار نہیں کرسکتی۔

ہمیں سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ مودی کو مورد الزام ٹہرانا بند کریں اور ان کی مدد کریں‘‘۔ پیلی بھیت میں مراد آباد سے الگ رحجان ہے۔ مرکزی ٹاؤن کے چوراہے سے کچھ فیصلے پر واقعہ رت پور گاؤں۔

وہاں پر چند مردوں پر مشتمل ایک گروپ تاش کھیل رہاتھا۔ ان کا تعلق مختلف طبقات سے تھا‘جیسے ہی بات چیت سیاسی حالات پر جانے لگی‘ مودی کے تئیں ان کے جذبات واضح ہوتے دیکھائی دینے لگے۔وجئے اوستھی نے سڑکوں کی تعمیر اور برقی کی پیدوار میں اضافہ کا سہرا مودی کے سرباندھا۔

مگر انہو ں نے کہاکہ انہیں حال ہی میں حکومت نے جو کیا ہے اس پر فخر ہے’’جب ہمارے جوانوں پر حملہ کیاگیاتو مودی نے بدلہ لیا اور 350دہشت گردوں کوماردیا‘‘۔ٹھاکر داس پرجاپتی جوکہ ایک چھوٹا کسان ہے نے تسلیم کرتے ہوئے کہاکہ ’’ مودی ہمارا محافظ ہے۔ ان کی وجہہ سے ہمارا سرفخر سے اونچا ہوگیا‘‘۔

اسی دوران ایک حجام مکھن لال نے کہاکہ ’’ اس مرتبہ ہندوستان برداری ‘طبقے نہیں دیکھ رہا ہے۔ ہم مودی کے لئے متحد ہیں‘‘۔ مظفر نگر کے راستے میں پڑھنے والے شاملی صلع کا بنات‘ یہاں پر رات کا وقت تھا او رچاہئے کی دوکانیں مصروف تھی۔

ودیادھر شرما ایک معمر شخص جس کی بڑی زمین ہے ۔ وہ مودی کا حمایتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ’’ مودی نے کئی لوگوں کو گھر او رکئی غریبوں کو گاؤں میں گیس کنکشن دئے ہیں۔ ان سب کے علاوہ میرے لئے مود ی نے پاکستان کو اسکی اوقات دیکھائی ‘‘۔

سنجے کمار کشیاپ نے حزب اختلاف کے اتحاد کا مذاق اڑایا۔انہوں نے کہاکہ ۔انہوں نے کہاکہ’’ تمام چور ایک شخص کے خلاف متحد ہوئے ہیں؟ کیونکہ انہیں کوئی اوروزیراعظم برداشت نہیں ہوتا‘ اس پوری معاملے میں غور کریں‘‘۔انٹرویو میں جونام ائے ہیں وہ سینی ‘ بشنوائی‘ چوہان ‘ اوستھی‘ پرجاپتی ‘ لال ‘ شرما ‘ کشیاپ ایک کہانی کہہ رہے ہیں۔

وہ مذکورہ سوشیل گروپ ‘ اعلی طبقات اور چھوٹے او ردیگر پسماندہ طبقات( او بی سی ) گروپس کی نمائندگی کرتے ہیں‘ جس کی وجہہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی2014کے لوک سبھا الیکشن اور 2017کے اسمبلی الیکشن میں جیت حاصل کی تھی

۔ سال2014میں بی جے پی نے 80میں سے 71سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی ۔ وہیں 2017بی جے پی نے 403میں سے312اسمبلی حلقوں پر جیت حاصل کی تھی۔

اور مذکورہ سماجی گروپس کے ممبرس مودی اورپارٹی کے لئے دوبارہ جذباتی ہیں۔بالاکوٹ فضائیہ حملہ کے بعد ہندوستان ٹائمز نے مغربی یوپی کے نو حلقوں ‘ سہارنپور‘ کیرانہ ‘ مظفر نگر‘ مرادااباد ‘ بیرلی ‘ پیلی بھیک ‘ بدایوں‘ ایٹاح اورہاتھرس کا دورہ کیا۔

تین ماہ قبل جب بی جے پی اور مودی کے ساتھ حکومت کی مخالف لہر تھی‘ وہیں اب موافق مودی لہر دوبارہ بحال ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔

اونچی ذات والوں کو اس بات کی تکلیف ہے کہ اس وقت کی حکومت ’’ موافق دلت ‘‘ تھی اور اور رام مندر کی تعمیر کے لئے کچھ عارضی اقدامات اٹھائے اورچھوٹی کسان اور اوبی سی طبقات کے لوگ آوارہ میویشیوں کی بڑھتی تعداد کے لئے حکومت کی پالیسی کو ذمہ دار ٹہرارہے ہیں۔