لکھنو:مسلم کی اترپردیش میں آبادی کے تناسب19%ہے اور اقلیتی امیدوار ایوان میں 24تک محددو ہوکر رہ گئے۔سال2012کے نتائج میں یہ ایک بہت بڑا تضاد ہے اس وقت69اراکین اسمبلی ایوان اسمبلی پہنچے تھے۔
اگرچہ کہ مسلمانوں کی اہمیت ہے ‘ بی جے پی نے 403اسمبلی حلقوں سے ایک بھی مسلمان کو اپنا امیدوار نہیں بنایا۔مغربی اترپردیش ‘ روہی کھانڈ‘ تیرائی اور ایسٹ یوپی میں مسلم کا اچھا اثر ہے‘ اور وہ یادو ‘ دلتوں کے ساتھ ملک پر کانگریس ‘ ایس پی‘ اور بی ایس پی کا بڑا ووٹ بینک بنے ہوئے ہیں۔
سماج وادی پارٹی اور کانگریس اتحاد کی بڑی وجہہ مسلم رائے دہندوں کو خیال میں رکھ کر کیاگیا تھا۔ انہیں خوف تھا کہ مسلم ووٹ ایس پی ‘ بی ایس پی کے درمیان میں تقسیم ہوجائیں گے جس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔
وزیراعظم نریند رمودی نے رمضان کے مقابلہ دیوالی پر تبصرہ کرتے ہوئے اس موضوع کو اٹھایا جس کا مقصد سماج وادی پارٹی کی جانب سے ہندوؤں کے ساتھ غیر منصفانہ رویے کا برتاؤ تھا۔
قیاس لگایا جارہا تھا کہ مسلم ووٹ تقسیم کے بغیر ایک سیاسی پارٹی کو ملیں گے جبکہ بی جے پی اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی رہے ۔
تاہم جو نتائج سامنے ائے ہیں اس سے اس بات کا اندازہ لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ کیا یہ علاقائی پارٹیوں سے عوام کی بیزارگی کا نتیجہ ہے یا پھرہندو ووٹوں کے پولرائزیشن وجہہ ہے۔