لکھنو:اکثر یہ کہاجاتا ہے سنگین نتائج کی دھمکیوں کے ذریعہ عوام کا ذہن تبدیل کیاجاسکتا ہے اور اسی طرح کی ترکیب اترپردیش انتخابات کی گواہی دے رہی ہے۔
متعدد ویڈیو او راڈیو کلپس مبینہ طور پر پوری ریاست میں پھیلائے گئے تاکہ ہندؤ رائے دہندوں کے کے ذہنوں کا استحصال کیاجاسکے جس کا نتیجہ بی جے پی کی بھاری اکثریت کے طور پر سامنے آیا ہے۔
بی جے پی جادوائی نمبر403میں سے324سیٹیں حاصل کرنے میں اسی وقت کامیاب ہوسکی جب مسلم ووٹ ایس پی‘ بی ایس پی اور اے ائی ایم ائی ایم کے درمیان میں تقسیم ہوئے۔مسلم اراکین اسمبلی کی تعداد بھی 69سے گھٹ کر 25ہوگئی۔
یہاں تک کہ مسلم اکثریتی علاقوں سے بھی ووٹوں کی تقسیم کے سبب انہیں شکست کو منھ دیکھنا پڑا۔
تاہم اے ائی ایم ائی ایم کا دعویٰ ہے کہ وہ کبھی بی جے پی کی مدد نہیں کرسکتی جبکہ اس نے 38سیٹوں پر مقابلہ کیامگر انتخابی مہم میں شامل پہلوؤں کو اگر جائزہ لیاجائے تو ان کے تمام دعوے کھوکھلے دیکھائی دیں گے
۔۱۔الیکشن مہم کاگانا:مذکورہ گانا پارٹی کی جانب سے جاری کیاگیا جو دونوں کمیونٹی کے درمیان میں مذہبی منافرت پھیلنے کا سبب بنا مبینہ طور پر اس گانے کو سی ڈیز میں کاپی کرکے رائے دہندوں میں پھیلنے کاکام کیاگیا
۔۲۔ اکبر الدین اویسی کی نرمل کی تقریریں جو سوشیل میڈیا پر پھیلائی گئی تھیں اس کا بھی بی جے پی کو بڑا فائدہ ہوا ۔ہر جلسے میں ولولہ انگیز مقرر کے طور پر مشہور ’ اویسی بردران مشتعل اور تقسیم پر مبنی نقطہ نظر مبینہ طور پر عام مسلمانوں پر بہت جلد اثر انداز ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ایس پی لیڈر اعظم خان اور بی ایس پی لیڈ ر یعقوب کی نفرت بھری تقاریر بھی عوام میں پھیلائی گئی
۔ ۳۔ شیر آیا شیر آیا: دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا‘‘اور اس طرح کے کئی نعرے ہندو ووٹ بینک کی مضبوطی کا سبب اوربھارتیہ جنتاپارٹی( بی جے پی) اترپردیش میں بھاری اکثریت سے کامیابی کی وجہہ بھی بنا۔
https://www.youtube.com/watch?v=UYadc9Nw2yA
ذرائع پر اگر یقین کیاجائے تو کہاجارہا ہے کہ مذکورہ ویڈیو فوٹیج دو کروڑ ہندؤں کو اپنے ووٹ مضبوط کرنے کے پیغام کے ساتھ بھیجا گیا۔